نئی نسل اور قومی زبان : تحریر افشین شہریار


ہم اردو نفاذ والے دن رات اردو کے فروغ کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ہم میں سے زیادہ تر تعلیم و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں اور یہ بھی طے ہے کہ دنیا میں جتنی بھی تحاریک کامیاب ہوئیں وہ اساتذہ نے ہی کامیاب کی ہیں۔اس طرح بچوں کے سامنے جو سوالات رکھ دیے جائیں تو وہ ان سوالات کے جوابات کی تلاش کے لیے سرگرم ہو جاتے ہیں۔
جب نفاذ اردو کی تحریک میں شمولیت اختیار کی، کام شروع کیا تو میری طرح میرے اور بہت ساتھیوں کو بھی پتہ چلا نفاذ کے لیے تو ہم کام کر رہے ہیں یہاں تو نفوذ کا میدان بھی خالی ہے۔اس کے لیےلوگوں کو اس بات کا احساس دلانا بھی ضروری ہے کہ آپ کی اپنی قومی زبان آپ کی بقا اور شناخت کے لیے کتنی اہم ہے۔

نفاذ کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ہم سب اراکین روزانہ نفوذ کے عمل سے بھی گزرتے ہیں۔ہم سب جہاں جہاں ہوتے ہیں اس سلسلے میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔
اسی طرح اپنے طلبہ و طالبات سے بات کرتے کرتے کل ایک بہت دلچسپ بات سامنے آٸی۔میرے ایک شاگرد جن کا نام شایان نعمان ہے۔گفتگو کے دوران ان کی ایک بات مجھے بہت ہی اچھی لگی بلکہ یوں کہیں کہ سوچ کا ایک نیا دروازہ کھلا۔
شایان نعمان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں جو لسانی جنگ جاری ہے۔اس کو ختم کرنے کے لیے اس کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اردو میں کہانیاں بھی لکھی جائیں اور ان میں علاقاٸی زبانوں کے کچھ الفاظ بھی شامل کیٸے جاٸیں، اس طرح ہم آہنگی کا احساس جنم لے گا ۔شایان نعمان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں فقدان ہی ہم آہنگی کا ہے ۔اس طرح سب اپنے اپ کو ایک پلیٹ فارم پر محسوس کریں گے

ان کی اس تجویز پر میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور میں یہ تجویز اگے بھی پھیلانا چاہوں گی کہ جو بھی پڑھے اس تجویز پر غور کرے۔ایک نوجوان جو ابھی سکول میں ہے ،اس طرح سوچتا ہے ۔یہ سوچ حبس کے موسم میں ہوا کا جھونکھا ہے۔
نٸی نسل ساتھ ہو گی تو کشتی کنارے لگے گی۔یہ سب کچھ نٸی نسل کو منتقل کیٸے بغیر ممکن نہیں۔
اللہ ہمیں کامیاب کرے

نہیں ہے ناامید اقبال، اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی ،بہت ذرخیز ہے ساقی