اب یا کبھی نہیں۔ کیا پاکستان کی معیشت بہتر کرنے کیلئے یہ آخری موقع ہے۔ آواز آ رہی ہے۔ کچھ کر ڈالو پاکستان کیلئے۔ تاریخ اور جغرافیہ دونوں سر گھٹنوں میں دیے بیٹھے ہیں۔ جمعرات 9مئی 2024ملک میں مزید محاذ آرائی پیدا کرگئی ہے۔ ریاستی ادارے ایک دوسرے سے مزید دور ہو گئے۔ تین صوبے ایک طرف۔ چوتھا صوبہ دوسری طرف۔ ہمارے ہاں ایک شہری تو 18سال کی عمر میں بالغ ہوجاتا ہے۔ معلوم نہیں کہ ابن خلدون۔ ٹائن بی۔ طبری نے کسی ریاست کی بلوغت کی عمر کی حد کتنی مقرر کی ہے۔ یہاں تو 76سال بعد بھی بلوغت نظر نہیں آتی۔
جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن کا تصور یہ تو نہیں تھا۔ ریاست ماں جیسی ہونی چاہئے جو بیٹوں بیٹیوں کو اپنی گود میں پالے، پڑھائے، پھر ہر طرح سے تربیت دے کر اسے اس خطّے کی اقتصادی، تہذیبی، ثقافتی، علمی ترقی کا ایک کارآمد پرزہ بنادے۔ ایسا ماحول فراہم کرے کہ نوجوان ملک سے باہر جانے کا نہ سوچیں۔ جن ملکوں نے ہمیں مصائب میں الجھایا ہے ان ہی کے ویزے کیلئے قطاروں میں نہ لگیں۔
جمعرات 9 مئی 2024 ایک اہم اور حساس دن تھا۔ جب واہگہ سے گوادر تک اور بالخصوص وفاقی راجدھانی اسلام آباد اور بڑے صوبے کی راجدھانی لاہور میں ماضی، حال اور مستقبل ایک ساتھ کھڑے تھے۔ پاکستان کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے واضح طور پر1953، 1958،1969، 1977، 1999، 2022 کی پرچھائیاں 2024 میں دیکھ سکتے تھے اور آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ پریس کانفرنسوں ریلیوں، کابینہ کی خصوصی میٹنگوں، اشتہارات، تقریروں میں اس کی بنیاد رکھی جارہی تھی۔ اشتعال ہر طرف تھا، اعتدال کہیں نہیں۔ 1970 کے بعد ہم پستیوں میں گرتے جارہے ہیں۔ جب کہ دبئی،قطر، سعودی عرب ترقی کررہے ہیں۔ 1971کے بعد بنگلہ دیش آگے بڑھ رہا ہے، ہم قلابازیاں کھارہے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں موجودہ اقتصادی ابتری، باگ سے ہاتھ رکاب سے پاؤں نکلنے کی ابتدا 1985 کے غیر جماعتی انتخابات سے ہوتی ہے۔ جس سے حقیقی آزادی اور جمہوری نظام کا راستہ ہمیشہ کیلئے روک دیا جاتا ہے، پردہ گرتا ہے، پردہ اٹھتا ہے، اداکار اداکارائیں آتے ہیں، ڈائریکٹر کی ہدایات کے مطابق مکالمے ادا کرتے ہیں، نقل و حرکت کرتے ہیں، ڈالر 16 روپے سے اڑان بھرتا ہے اور 300 روپے تک پہنچتا ہے۔ 1985سے 2024 تک کوئی اس اونچی اڑان کو روکنے کیلئے ملک کا اقتصادی ڈھانچہ بدلنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کرتا ہے۔ حکمران سیاسی ہوں یا فوجی ان کے اثاثے بڑھتے رہتے ہیں۔ ریاست کا خزانہ غریب، آبادی میں سے کثیر حصہ غربت کی لکیر سے نیچے۔ ملک پر قرضوں کا بوجھ زیادہ ہوتا رہتا ہے، کہنے کو سول ملٹری تعلقات۔ آئینی تحریف و ترمیم۔ قانون کا یکساں نفاذ، موسمیاتی تبدیلیاں، پینے کا صاف پانی، عالمی امور پر سیمینار، ورکشاپ منعقد ہوتی ہیں۔ مگر بنیادی طور پر قبائلی سرداروں، جاگیرداروں، تمنداروں، سرمایہ داروں کی گرفت مضبوط ہوتی رہتی ہے۔ ایک اقلیت ہے۔ اعلیٰ سول افسروں، اعلیٰ فوجی افسروں، ججوں، اینکر پرسنوں کی مالی حیثیت اور اثاثے قابل رشک ہوتے رہتے ہیں۔ یہ حکمران طبقے، آئین، قانون، محصولات سب سے بالاتر ہیں۔ طبقاتی خلیج وسیع ہوتی رہتی ہے۔
آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں بہوؤں دامادوں کے ساتھ بیٹھنے۔ عظیم مملکت پاکستان کے بارے میں تبادلۂ خیال کرنے کا دن، پرائمری، نویں، دسویں کے امتحانات ہورہے ہیں۔ بزرگ نئی نسل کیلئے دعائیں کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہر امتحان میں کامیاب کرے۔ حکمران طبقوں میں جب بد نیتی اور خود غرضی در آئے تو ہر شعبے میں انہونیاں ہوتی ہیں۔ امتحانات کیلئے بچوں کی کامیابی سے زیادہ یہ دعا کرنا پڑتی ہے کہ سارے امتحانات وقت پر ہوتے رہیں۔ پرچے آؤٹ نہ ہوں۔ اتنی زرخیز زمین۔ عوام کتنے ذہین۔ کسان کتنے جفاکش مگر حکمرانوں کی وجہ سے جب گندم کٹتی ہے۔ تو ماضی کی طرح ‘کنکاں پکیاں نیں‘۔ کے موقع پر خوشیاں نہیں ہوتیں۔ فکر لاحق ہوتی ہے کہ کس ریٹ پر گندم خریدی جائے گی۔ جب خوشۂ گندم صاف ہوکر شکر ادا کرنے کا وقت آیا ہے تو گندم کی درآمد کا اسکینڈل سامنے کھڑا کردیا گیا ہے۔ فصلیں پوچھتی ہیں کہ یہ حکمران طبقے یہ اقلیت، اکثریت کی خوشی، تردد میں ڈھال کر کیوں خوش ہوتی ہے۔ مسائل حل کرنے کی بجائے اس کا ڈنکا کیوں بجاتی ہے۔
سوشل میڈیا نے اطلاع کے رسوخ اور آمدنی پر قبضہ کر لیا ہے۔ جب صبح سے من پسند خبریں، رپورٹیں مرکزی میڈیا پر مسلسل چلیں گی تو کروڑوں آنکھیں اکتاکر یو ٹیوب چینلوں کی طرف راغب ہوں گی۔ عجیب دَور ہے۔ اینکر پرسن روپے میں تنخواہیں لے کر سرکاری جھوٹ بولتے ہیں اور جہاں ڈالر نازل ہوتے ہیں وہاں سچ بولتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے حکمرانوں کے دبدبے اور ریاست کے حکم کا اثر زائل کردیا ہے۔ بہت خطرناک وقت ہے۔ طاقت ور بے بس نظر آرہے ہیں۔ جھلاہٹ سے آنکھیں بڑی ہورہی ہیں، دل چھوٹے۔ دماغ سکڑ رہے ہیں۔ جن کے پاس جتنی زیادہ قوت ہے وہ اتنے ہی خوف زدہ ہیں۔ الزامات کوہ ہمالیہ جتنے بلند اور بھاری بھرکم لگتے ہیں۔ ثبوت کٹی پہاڑی جتنے بھی نہیں ہیں۔
ہم بڑی طاقتوں کی جنگ میں کوئی کردار حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر ہماری ذہنی سطح تو وہ نہیں رہی۔ ہم کالجوں یونیورسٹیوں کی لسانی نسلی طلبہ تنظیموں کی طرح لڑتے ہیں۔ اپنے اپنے لڑکوں کو لے کر موقع واردات پر پہنچ جاتے ہیں۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہمارے عظیم دوست چین نے صلح کروائی ہے۔ چین کی کوشش ہے۔ سارا ایشیا پُر امن اور خوشحال ہو۔ امریکہ یورپ انہیں نو آبادیات نہ سمجھیں۔ مگر حکمران طبقے امریکہ سے تعلق کو ہی ناگزیر سمجھتے ہیں۔ بازوئے شمشیر زن کا منصب ریاست کو بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔ سیاسی بیانات دینا نہیں۔ ادارے اگر جانبدار ہو جائیں تو اپنا احترام کھو بیٹھتے ہیں۔ عدلیہ میں تقسیم واضح طور پر نظر آرہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ (رجحان) خلق خدا کا مزاج پیما ہے۔ ہمارے حکمران روزانہ یہ پیمائش دیکھتے بھی ہوں گے۔ زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو۔ 8 فروری کا ٹرینڈ تاریخ نے دیکھا ہے۔ جمہوری نظام کا انتخاب عالمی رائے عامہ نے صدیوں کے جائزے کے بعد کیا ہے۔ اکثریت کی رائے سے ہی ریاستیں آگے بڑھتی ہیں۔ اقلیت کا بیانیہ تاریخ کے پہیے کو پیچھے دھکیل نہیں سکتا ہے۔ یہ بیانیے فلک بوسوں کو بونا بنادیتے ہیں۔
اس بہت سنگین اور پیچیدہ صورت حال میں میر خلیل الرحمن فاؤنڈیشن کی یہ اپیل ہی وقت کا تقاضا ہے۔ حکمرانوں سے جاگیرداروں سے، ارکان اسمبلی سے، اعلیٰ ادنی افسروں سے ریاست کے اداروں سے یہی کہنا ہے:
’’اس بار کچھ کر ڈالو پاکستان کیلئے‘‘
بشکریہ روزنامہ جنگ