آزاد جموں وکشمیر کے عوام سراپا احتجاج کیوں؟…تحریر سردار عبدالخالق وصی


جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ازاد جموں وکشمیر کی اپیل پر آج آزاد جموں وکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں شٹر ڈاؤن و پہیہ جام اور گھیراؤ کی کال دے رکھی ھے جہاں آزاد جموں وکشمیر بھر سے مختلف قوم پرست، تنظیموں،انجمن تاجران،سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں سے وابستہ کارکنان (اپنے طور پر) خاصی بڑی تعداد مظفرآباد پہنچ کر اپنے دیرینہ مطالبات منوانے کے لئے اپنی قوت کا مظاہرہ کرے گی۔ جس کے لئے وزیراعظم آزاد جموں وکشمیر چوھدری انوار الحق نے وفاقی حکومت، صوبہ خیبرپختونخواہ اور پنجاب سے لا انفورسمنٹ فورسز کی بڑی تعداد منگوا رکھی ھے جس کے رد عمل میں آزاد جموں وکشمیر کی سیاسی فضاء مکدر و مشتعل دکھتی ھے۔ ڈڈیال میں ایک دن پہلے ھی اسکی ابتدا ھو چکی ھے ویسے بھی ڈڈیال کی سر زمین ایسے موقعوں پر ایک آتش فشاں پھٹنے کی منتظر رھتی ھے اس واقعے کے بعد ایکشن کمیٹی نے اپنی تحریک کو ایک دن پہلے سے شروع کردیا ھے جس سے ماحول میں زیادہ ارتعاش پیدا ھوگا۔

سیاسی جماعتوں کے قائدین نے وزیراعظم کو مظاھرین کے احتجاج کو روکنے کے لئے کسی قسم کے تشدد اور رکاوٹ ڈالنے سے منع کرتے ھوئے مظاھرین سے مذاکرات کے زریعے مسائل حل کرنے پر زور دیا ھے اور اپنے کارکنان سے یہ کہہ رکھا ھے کہ پر امن احتجاج انکا حق ھے لیکن وہ کسی منفی سرگرمی توڑ پھوڑ گھیراؤ جلاؤ اور قومی املاک کے نقصان اور پاکستان و افواج پاکستان نعروں کا حصہ نہ بنیں لیکن جب مظاھرے اور پر تشدد کارروائیاں شروع ھو جائیں تو ایسے اجتماعات میں کسی کو قابو رکھنا کہاں ممکن رھتا ھے یہی کچھ ڈڈیال میں ھوا اور بتایا جاتا ھے حالات کشیدہ تر ھوتے جارھے ھیں اس میں انتظامیہ کی غلط حکمت عملی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جسکا نقصان بھی زیادہ تر انتظامیہ کا ھی ھوتا ھے۔جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطالبات/ چارٹر آف ڈیمانڈ جنکا متعدد بار ان سے وعدہ کیا گیا ھے اور حکومتی نوٹیفکیشن بھی جاری کئے گئیے لیکن ان پر عملدرآمد میں پیش رفت نہ ھونے پر آج یہ نوبت ھے کہ یہ حساس خطہ کشیدگی کا شکار ھے اسی ماہ آزاد جموں کشمیر کے منتخب بلدیاتی نمائندوں نے بھی حکومت کو 20 مئی تک بلدیاتی اداروں کے لئے ازاد کشمیر کے بجٹ میں ترقیاتی فنڈز مختص کرنے اور قانون کے مطابق اختیارات دینے کے لیے ڈیڈ لائن دے رکھی ھے بصورت دیگر وہ بھی سڑکوں پر ھونگے اور مظفرآباد دارالحکومت میں قانون ساز اسمبلی کا گھیراؤ کریں گے۔
وزیراعظم آزاد جموں کشمیر اپنی تقاریر اور خود صفائی کی حد تک بہت پر مغز اور اثر انگیز گفتگو کرنے میں خاصی مہارت رکھتے ھیں اور اپنی وزارت عظمیٰ کے منصب کو عطیہ الہی اور لوگوں کے لیے نعمت کبریٰ قرار دیتے ھیں لیکن مسائل حل کرنے اور ان پر توجہ دینے کے بجائے رات کو شب بیداری اور دن کو دفتر اور دارالحکومت سے بالعموم عدم دستیابی کا مظہر ھیں۔

آزاد جموں وکشمیر کی سیاسی جماعتیں خواہ وہ مقامی ھیں یا پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی شاخ، موجودہ حکومت کے قیام کے بعد عملاً لا تعلق اور غیر موثر گویا تجاہل عارفانہ کی مظہر، اسکی وجہ شاھد یہ ھے کہ موجودہ وزیراعظم کی تقرری جس انداز میں ھوئی کہ رمضان کے مہینے میں رات کے تیسرے پہر 53 کے ایوان میں 48 ووٹ لیکر وزیراعظم منتخب ھوئے جو آزاد کشمیر کی تاریخ میں ایک سیاسی معجزے سے کم نہیں جو پانچ ووٹ وہ حاصل نہیں کرسکے وہ اگر کوشش کرتے اور یہ پانچ اسوقت اسمبلی احاطہ میں موجود ھوتے تو شاھد کوئی امر مانع نہ ھوتا کہ یہ بھی اللہ اکبر کہہ دیتے کہ ظل الہی کو یہی منظور و مقصود تھا۔
جہاں تک وفاقی حکومتوں کا تعلق ھے وزیراعظم وقت جناب محمد نواز شریف نے آزاد جموں وکشمیر کی حکومت کو صوبوں کے ھم پلہ بنانے کے لئے اپنے دور حکومت 2013/18 کے دوران ترقیاتی بجٹ تقریباًًً دوگنا کردیا تھا جسے بعد کی حکومتوں نے بھی جاری رکھا ماسوائے تحریک انصاف کے دور میں ترقیاتی فنڈز میں وہ فراوانی تو نہیں رھی لیکن بطور پالیسی جو مالی معاملات طے ھوتے ھیں بیوروکریسی اور مالیات کے شعبے انکی کم و بیش پاسداری کرتے ھیں۔ وزیر اعظم جناب شہباز شریف کے پہلے دور حکومت PDM Regime میں وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار نے اور بعد میں نگران حکومت اور اسوقت بھی آزاد کشمیر حکومت کو فنڈز کی کمی کا کوئی مسئلہ در پیش نہیں رھا لیکن اسوقت آزاد کشمیر کی سیاسی صورت حال اس قدر خراب ھے کہ پاکستان مخالف رحجانات اس قدر تیزی سے فروغ پا رھے ھیں کہ اگر ان پر بر وقت توجہ نہ دی گئی تو شاھد بعد میں اصلاح احوال لاحاصل ھو۔ ویسے بھی پاکستان میں جن قوتوں نے عمران خان کو آگے لانے کا فریضہ انجام دیا تھا بعد میں وہ اپنے اس جن بلکہ جنوں کو جو جدی پشتی انکی ھی پیداوار رھے ھیں انکو بوتل میں بند نہیں کرسکے اسی طرح کے واقعات اب آزاد کشمیر میں وقوع پذیر ہونے جارھے ھیں۔
آزاد جموں وکشمیر کی جہاں ایک خصوصی سٹریٹجک حیثیت ھے وھاں یہاں کے عوام کا سیاسی و سماجی مزاج بھی قدرے یکتا و مزاحمتی طرز فکر کا حامل ھے۔
آزاد جموں و کشمیر جہاں پاکستان کا جغرافیائی و تزویراتی حصار ھے وھاں یہ خطہ اپنی نوعیت کا واحد خطہ ھے جہاں کے باسیوں نے 1947 میں اپنے لئے الگ خود مختار ریاست کے انتخاب کے بجائے پاکستان کا حصہ بننے کو ترجیح اول قرار دیا حالانکہ اسوقت ریاست کے مہاراجہ کو بھی یہ suit کرتا تھا کہ بے شک اسکے باغی حکومت ھی قائم ھو وہ خود مختاری کی علمبردار ھو لیکن آزاد کشمیر کے اکابر اور عساکر جنہوں نے پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں اپنی شرکت سے جنگی تجربے و صلاحیتوں سے جنگ آزادی بلکہ جنگ الحاق پاکستان لڑی آج اس خطے میں منفی اور پاکستان مخالف رحجانات کا فروغ پزیر ھونا پاکستان کے ارباب حکومت،صاحبان علم و دانش اور عساکر پاکستان کی قیادت و تھنک ٹینکس کے لئے ایک لمحہ فکریہ ھونا چاھیے کہ حالات کس سمت جارھے ھیں۔ محض مثل کبوتر آنکھیں بند کر کے بلی سے بچنے کی تدبیریں سوچتے رہیں گے جسکا نتیجہ روایت سے مغائر نہیں ھوگا ۔دوسری طرف بھارت نے 5 اگست 2019 سے کشمیر کی خصوصی حیثیت اور دفعہ A370/35 Aکے ختم کر کے کشمیر کا مسلمہ قضیہ جسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت ملنا تھا اسکا دروازہ بند کردینے کے باوجود وھاں مثالی اور منفرد طرز کے ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع کیا ھوا ھے کہ باوجودیکہ تاریخ کی بے مثال قربانیوں کی تاریخ رقم کرنے والے کشمیری اب تذبذب کا شکار ھیں جسکا اندازہ بھارت کے آنے والے انتخابی نتائج سے بخوبی ھو جائے گا۔ھم نے مشرقی پاکستان کا “بوجھ” تو اتار دیا لیکن ھماری کمر پھر بھی خمیدہ سے خمیدہ تر ھوگئی کہ ھم سے معیشت سنبھل پا رھی ھے نہ جمہوریت۔ اس لئے پاکستان کے ارباب حل و عقد،قائدین حرب و ضرب آزاد کشمیر کے حالات و واقعات سے اس قدر چشم پوشی نہ کریں کہ ھاتھوں کی دی ھوئی گانٹھیں دانتوں سے کھولنے کے قابل بھی نہ رہیں۔
وزیراعظم کو اگر یہ زعم ھے کہ مقتدرہ کی پشت پناہی اور ایم ایل ایز کی مراعات و نوازشات میں خطیر اضافے سے وہ آزاد جموں و کشمیر کے عوام اور انکے مطالبات و مسائل کو جوتے کی نوک پر رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے تو یہ انکی بھی خام خیالی ہے اور ذمہ دران کی چشم پوشی سے حالات کی خرابی میں اضافے کے سوا کچھ نہیں ھوگا۔
یہ کیا وجہ ھوئی کہ سال بھر سے لوگ سڑکوں پر مطالبات و مسائل کے لئے در بدر ھیں اور ان سے مذاکرات کے نتیجے میں ھونے والے وعدے پورے نہیں کئے جارھے۔
یہ وقت ڈیجیٹل فیبرک کا ھے لوگوں کو انگلیوں کی ٹپ پر پتہ ھے کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کو کیا کیا سبسڈیز حاصل ھیں اور یہاں پاکستان میں گلگت بلتستان کے عوام کو کیا کیا سہولتیں دستیاب و میسر ھے وزیراعظم کا محض یہ کہنا کہ انہوں نے مافیاز کا خاتمہ کردیا ھے اور 20 ارب کی آٹے پر سبسڈی دی جارھی ھے یہ سبسڈی کس کو دی جارھی ھے آزاد کشمیر کی آبادی چالیس پنتالیس لاکھ کے لگ بھگ ھے جن میں سے پندرہ لاکھ سے زیادہ بیرون ملک یا پاکستان میں بستے ھیں تو کیا 20 ارب کا آٹا یہ بیس لاکھ کھاتے ھیں یہی حال بجلی کے بلات کا ھے کہ کشمیریوں کو اس سے کیا مطلب کہ فیولایڈجسٹمنٹ چارجز سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکسز کہاں جاتے ھیں اور کیوں لگتے ھیں وہ تو پروڈکشن ریٹ سے قدرے زیادہ بلات کا مطالبہ کرتے ھیں۔انہیں 20/25 لاکھ کی آبادی پر اشرافیہ کی اربوں روپوں کی مراعات و تعیشات کے خاتمے اور یہ فنڈز اس خطے کی تعمیر وترقی پر لگانے کا مطالبہ کرتے ھیں اور اسی کے لئے وہ سراپا احتجاج بھی ھیں اور اس نظام کے خلاف آمادہ بغاوت بھی۔
تحریکوں اور بالخصوص مزاحمت کی تحریکوں میں یہ ضروری نہیں ھوتا کہ وہ قیادت کے قابو میں رہیں اور راست سمت میں پیشرفت کریں کبھی ان تحریکوں کو کوئی نادیدہ قوت بھی استعمال کرسکتی ھے اور انکو بزور قوت دبانا ممکن نہیں ھوتا اسوقت آزاد کشمیر میں پنجاب کانسٹیبلری اور فرنٹیئر کانسٹیبلری بلا کر عوام کو مشتعل کرنے کی جو کوشش کی جارھی ھے اسکے نتائج سنگین ھو سکتے ھیں ھمارے لوگوں خاصکر پونچھ ڈویژن کے لوگ ان اصطلاحات سے چڑتے بھی ھیں اور اسکا ردعمل انکے خون میں بھی شامل ھے اسکو بارود کو آگ دکھانے کے مثل سمجھنا چائیے۔ ھماری صلاح عام یاران نکتہ داں کے لئے یہی ھے کہ ذمہ دران صورت حال کی نزاکت کا ادراک کریں کسی “ارسطو یا افلاطون” پر نہ رہیں۔