عمران خان رکنے کا نام نہیں لیں گے تو پھر پاک فوج کی طرف سے خان اور تحریک انصاف کیلئے کسی قسم کی نرمی کیسے ممکن ہو گی؟ میں پہلے بھی کہہ چکا اور اب پھر کہہ رہا ہوں کہ عمران خان کو اُن کی زبان نے بہت نقصان پہنچایا اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود وہ اب بھی بلا سوچے سمجھے جو کچھ اُن کے دل یا دماغ میں آتا ہے، کہہ دیتے ہیں۔ دوسروں پر الزامات لگانے میں وہ ہمیشہ بادشاہ رہے اور اب بھی اُن کا یہی رویہ ہے۔ ایک طرف وہ اور اُن کی پارٹی کے رہنما آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف خان صاحب آرمی چیف کو لگاتار نشانہ بنا رہے ہیں۔ پہلے وہ جو زبانی کلامی الزامات لگاتے تھے اب گزشتہ ہفتہ برطانوی اخبار ٹیلی گراف میں اپنے شائع ہونے والے مضمون میں یہ لکھ کر بھی کہہ دیا کہ اگر اُنہیں یا اُن کی اہلیہ کو کچھ ہوا تو ذمہ دار آرمی چیف جنرل عاصم منیر ہوں گے۔ اُن کا یہ مضمون فوج اور فوجی قیادت کے خلاف تھا اور یہ مضمون ایک ایسے وقت میں شائع ہوا جب تحریک انصاف کے مختلف رہنما ایک بار پھر فوجی قیادت سے مذاکرات کرنے کی خواہش کا اظہار کررہے تھے۔ اس کے جواب میں فوج کی طرف سے جس قسم کے ردعمل کاگزشتہ روز فوجی ترجمان کی طرف سے پریس کانفرنس میں اظہار کیا گیا اُسی کی توقع تھی۔ پاک فوج کے ترجمان نے تحریک انصاف سے مذاکرات کی تجاویز کو مکمل طور پر رد کر دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ 9 مئی کرنے اور کروانے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانا لازم ہے ورنہ ایک اور 9 مئی ہو سکتا ہے۔ فوجی ترجمان نے عمران خان اور تحریک انصاف کا نام لیے بغیر اُنہیں سیاسی انتشاری ٹولہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اُن کیلئے صرف ایک رستہ ہے کہ وہ عوام کے سامنے صدق دل سے معافی مانگیں، نفرت کی سیاست کو ختم کریں اور ملک اور عوام کی بہتری کیلئے تعمیری سیاست کریں۔ فوجی ترجمان نے تحریک انصاف اور فوج کے درمیان مذاکرات کی تجویز کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت سیاسی جماعتوں کے بیچ ہی ہو سکتی ہے فوج یا ادارے کے ساتھ نہیں۔ گویا فوج اور اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان اور تحریک انصاف کیلئے اب بھی مذاکرات کے دروازہ بند ہی رکھے ہوئے ہیں لیکن معافی تلافی کی گنجائش اب بھی باقی ہے۔ اور معافی تلافی کیلئے عمران خان اور تحریک انصاف کو کیا کرنا ہے یہ بھی فوج کے ترجمان نے بتا دیا۔اب سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان 9 مئی کے حوالے سے ذمہ داری قبول کریں گے اور سرعام معافی مانگیں گے تو یہ بھی مجھے ممکن نظر نہیں آتا۔ عمران خان جو ایک بار کہہ چکے کہ 9 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں اُن کی رینجرز کی طرف سے گرفتاری کے ردعمل میں تحریک انصاف کے وکررز نے اپنا ردعمل دیا، اب اس بیانیہ کو لے کر چل رہے ہیں کہ 9 مئی ایک فالس فلیگ آپریشن تھا یعنی فوج کی طرف سے خود کیا گیا تاکہ تحریک انصاف کو کچلا جا سکے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی مقبولیت اپنی جگہ لیکن ان کی سیاست اب ایک بند گلی میں ہے۔ جن سے یہ بات کرنا چاہ رہے ہیں اُن پر ہر قسم کے الزامات بھی لگا رہے ہیں۔ سیاستدانوں سے بات کرنے کیلئے تیار نہیں۔جب سے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا ہے،اُس وقت سے اُن کا نشانہ فوج اور فوجی قیادت ہی رہی۔ ایک کے بعد دوسرا آرمی چیف آ گیا لیکن عمران خان کا ہدف نہ بدلا۔ پہلے وہ جنرل باجوہ پر الزامات لگا کر فوج کی مدد سے حکومت میں آنا چاہتے تھے، اب وہ جنرل عاصم کو نشانہ بنا کر فوج کی مدد سے حکومت لینا چاہ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جو کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آتی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ