سانحہ 9 مئی۔ جیوڈیشل کمیشن یا ٹرتھ کمیشن۔ : تحریر سردار عبدالخالق وصی


سانحہ 9 مئی کوئی راکٹ سائینس نہیں ھے کہ جس کو سمجھنے،ذمہ داری کے تعین،پس پردہ محرکات اور ماسٹر مائینڈ تلاش کرنے کے لئے کسی جیوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی ضرورت ھو۔
یہ کوئی خفیہ سازش یا راز بھی نہیں ھے جسکی کھوج لگائی جائے۔یہ ایک اظہر من الشمس واقعات کا تسلسل ہے جسکی کڑیاں 2014 کے دھرنے سے لیکر اب تک ایک دوسرے کے ساتھ ملتی سامنے نظر آ رھی ھیں۔

اسے سانحہ کہیں یا ایک فسطائیت پر مبنی سوچ کا شاخسانہ، جسکا شکار ایک طرف تو ھمارے عسکری ادارے، انکی قیادت،انسٹالیشننز ھوئی ھیں اور سوشل و الیکٹرانک میڈیا ان قومی اداروں کی جو تضحیک کی گئی اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں۔فوجی حکومتوں کے دوران سیاسی قیادتو و کارکنوں پر ایسے ایسے مظالم ڈھائے گئے ھیں یہاں تک کہ ایک قومی لیڈر کو تختہ دار پر لٹکا دیاگیا ایک قومی لیڈر اور سینکڑوں ساتھیوں کو قتل کروا دیا گیا دو تہائی اکثریت والے لیڈر کو ایک بار نہیں تین بار اقتدار غیر آئینی و غیر قانونی طریقے سے حکومت سے الگ کردیا گیا لیکن یہ رد عمل نہیں آیا جو ایک آئینی عمل کے زریعے عدم اعتماد سے الگ ھونے پر دیکھنے کو ملا پر اور دوسری طرف پی ٹی آئی کے وہ غریب اور زہنی مریض خواتین اور جوانان جو اپنی قیادت کے سحر میں اس قدر گرفتار اور محبوس ہو چکے ہیں کہ ان کو اپنی قیادت و اپنے سوا سب چور و ڈاکو نظر آتے ھیں انہیں قومی حمیت کا ادراک ہے نہ ملکی اقتصادیات اور معاشیات کی فکر۔
9 مئی کے نتیجے میں تحریک انصاف کے وہ غریب اور خواتین کارکنان جو متوسط درجے سے تعلق رکھتے ھیں کیا جیلوں میں ان کی بھی کسی نے خبر گیری کی ھے ؟ ان کو تو زمان پارک میں بھی اور جیلوں میں بھی حفاظتی باڑ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔
اگر ھم 10 اپریل 2022 سے لیکر 9 مئی 2023 تک بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے متعلق واقعات اور سرگرمیوں کا اجمالی سا جائزہ لیں اور گزشتہ اخبارات اور مختلف ٹی وی ٹاک شوز کو ریوائینڈ rewind کریں تو سب حقیقت ایک فلم کی طرح آشکار ھو جاتی ھے
09 مئی 2023کو اسلام آباد ھائی کورٹ کے احاطے سے عمران خان کی گرفتاری سے قبل زمان پارک لاھور میں گرفتاری سے بچنے کے لئے جسطرح کی حصار بندی اور حفاظتی پشتے قائم کئے گئے تھے اور لاء انفورسمنٹ ایجنسیوں کے اھلکاروں پر پٹرول کریکر اور غلیلوں کا استعمال ھوتا رھا اور عدالتوں پر دباؤ بڑھانے کے لئے جسطرح کی جتھہ بندی جلوس گردی تاخیر سے عدالتوں میں حاضری کا سلسلہ چلتا رھا، ھائی کورٹ و سپریم کورٹ کی عدالتوں سے بھی جو وی آئی پی پروٹوکول اور love to see you کے استقبالیہ کلمات تحسین ادا ھوتے رھے وہ کب کسی سے پوشیدہ ھیں جو اس کے لئے کسی جیوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی جائے۔ ویسے بھی ھمارے ھاں جیوڈیشل کمشنز کی ماضی کی جو تاریخ ھے وہ بھی سب کو پتہ ھے کہ ان کمشنز یا انکوائریز نے کب کسی کو سزا یا جزا سے نوازا ھے اگر ان کمیشنز و تفتیشوں کا سرسری جائزہ لیا جائے تو ھمارے ھاں جو جو معروف کمیشن بنے ھیں ان میں سے کسی کی رپورٹ سامنے آئی نہ کوئی مثبت و مطلوبہ کاروائی دیکھنے کو ملی یہاں تک کہ سپریم کورٹ پاکستان کے فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عملدرآمد بارے قائم حالیہ کمشن جسکا نوٹس سپریم کورٹ نے اسوقت بھی لے رکھا ھے ایسے کمشن وقت کے ضیائع،اصل مسئلے سے توجہ ھٹانے اور سرکاری وسائل کی خطیر پھکی کے کچھ نہیں ھوتا۔ تحریک انصاف کے قائدین،انکے حاشیہ بردار پارلیمنٹیرینز،وکلا،صحافی و سادہ لوح کارکنان تسلسل سے جیوڈیشل کمیشن کا مطالبہ بھی اسی لئے کر رھے ھیں کہ وقت ضائع ھو،اصل مسئلہ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات میں تعطل اور توجہ ھٹائے جانے کا ھے بالکل بجا کہا ھے ڈاریکٹر جنرل ISPR نے کہ اگر جیوڈیشل کمیشن بنانا ھے تو وہ ان تمام واقعات اور سرگرمیوں کا احاطہ کرے جو 2014 کے دھرنے سے شروع ھوئی ھیں اور اب تک تسلسل سے جاری ھیں۔ جن میں دھرنے،پارلیمنٹ، ٹی وی سٹیشن،وزیراعظم ہاؤس، پر حملوں،سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ ہاؤس کے سامن لگے جنگلوں پر گندے کپڑے لٹکانے سے دوست اور سٹریٹجک پارٹنر ممالک کے صدور کے دوروں میں رکاوٹ،دوست ممالک بالخصوص سعودی عرب جیسے ھمدرد ملک کے خلاف جھوٹ الزامات اور دیگر ممالک سے سفارتی تعلقات خراب کرنے تک سے لیکر IMF سے قرضے نہ دینے کے خطوط اور ان کے پیچھے تھپکی دینے والوں تک تحقیقات کرے۔
ھمارے خیال میں پاکستان میں ایک ٹروتھ کمیشن بنائے جانےکی ضرورت ہے جو قیام پاکستان سے لیکر آج تک پاکستان میں سیاسی و معاشی عدم استحکام کا جائزہ لے ذمہ داران کی سزا یابی تو شاید مشکل اور ناممکن عمل ھو لیکن سب صدق دل سے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے معافی اور آئیندہ سے محتاط رھنے کا قومی سطح پر اعتراف ندامت یا اعتراف حقیقت کریں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ 9 مئی کے واقعات پر کہیں غفلت مجرمانہ کا ارتکاب بھی کیا گیا ھے اور عدالتوں اور پراسیکیوٹرز یعنی ریاست و ریاستی اداروں کی جانب سے تساہل بھی برتا گیا ہے ایک سال گزر گیا لیکن نہ کوئی کیفر کردار تک پہنچا نہ الزامات سے مبرا و منزہ ھو سکا۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف تنہا ان واقعات کی ذمہ دار نہیں بلکہ اسکی پشت پناہی کرنے والے بھی پارلیمنٹ،انتظامیہ،عدلیہ،اسٹیبلشمنٹ الغرض ہر طبقہ فکر و عمل میں موجود ھیں جنہوں نے معاشرے کو پراگندہ اور تقسیم کر رکھا ھے کوئی شعبہ زندگی ھی نہیں ہر گھر ہر یونٹ میں اسقدر تقسیم و تفریق پیدا کردی گئی ہے کہ ہمارا اتحاد و یکجہتی ہی نہیں ہماری حمیت و وقار بھی انفرادی و قومی سطح پر ختم ھو کر رہ گیا ھے۔
ضرورت اس امر کی ھے کہ ھم میں سے ھر ایک اپنے حصے کی شمع جلائے بھی اور اسکی حفاظت بھی خود کرے۔
میں جماعتی سطح اور سیاسی وابستگی سے بالا تر ھو کر یہ کہوں گا کہ سب اداروں کو،سب ذمہ داروں کو جذبات و پسند ناپسند سے ھٹ کر اس جانب پیشرفت کرنا ھوگی اور کسی کو مدبرانہ کردار ادا کرنے کے لئے آگے بڑھنا ھوگا موجودہ ارباب حکومت و اپوزیشن ایک دوسرے کو سر کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی حقیقتوں کو تسلیم کریں اور میثاق معیشت سے لیکر میثاق مفاھمت پر آئیں اور اس ملک میں جمہوری قدروں،انصاف اور احسان کو فروغ دیں۔بد قسمتی سے فسطائیت اور فسطائی سوچ نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کردی ھیں اسوقت ایک سنہری موقع ھے کہ اقوام عالم بالخصوص ھمارے ھمدرد ممالک ھماری مدد کرنے پر آمادہ نظر آ رھے ھیں اس موقع سے فائدہ اٹھائیں ورنہ سقوط بغداد،سقوط ڈھاکہ جیسے الفاظ ڈکشنریوں میں موجود ھیں اور ایسے مزید الفاظ درج ھونے کے لئے صفحات خالی پڑے ھیں۔
خدا راہ اعلیٰ عدالتوں،افواج پاکستان اور پارلیمنٹ کی مزید تنقیص وتضحیک کے بجائے انکی اصلاح احوال اور انکے اپنے اپنے متعین کردہ دائرہ کار پر توجہ مرکوز کریں یہی وقت کا فرمان جلی ھے۔