درویش نے رواں برس 16مارچ کو ’تالاب گدلا ہو گیا ہے‘ کے عنوان سے ہماری موجودہ سیاسی بے ترتیبی کے بیان میں برسبیل تذکرہ قرار داد مقاصد، لیاقت علی خان کے علاوہ مولانا شبیر احمد عثمانی مرحوم کا ذکر کیا تو برادر بزرگ مجیب الرحمن شامی کو سخت اختلاف ہوا۔ انہوں نے 17 مارچ 2024 کو اپنے کالم میں ’قرار داد مقاصد پر غصہ؟‘ کے عنوان سے اپنا مؤقف بیان فرمایا اور پھر اپنے زیر ادارت ماہنامہ قومی ڈائجسٹ کے شمارہ بابت اپریل 2024ء میں’قرارداد مقاصد پر اعتراض‘ کے عنوان سے اداریہ بھی تحریر فرمایا۔ درویش نے نہایت مودب پیرائے میں 20 مارچ کو اپنے کالم میں’استاد گرامی کی تادیب‘ کے زیر عنوان محترم شامی صاحب کے چند بنیادی نکات سے اختلاف کیا اور آگے بڑھ گیا۔ بندہ کم مایہ سمجھتا ہے کہ سیاسی موضوعات پر اپنی رائے کسی تلخی یا قطعیت کے بغیر دلائل اور حوالے سے بیان کرتے ہوئے بحث و تکرار سے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے۔ ہمارے قطبی تقسیم کے حامل معاشرے میں سیاسی، تاریخی اور معاشرتی مباحث میں جمہوری مکالمے کی روایت کمزور ہے اور غیر ضروری بدمزگی کا احتمال رہتا ہے۔ تاہم کچھ قابل احترام احباب نے رائے دی ہے کہ اس موضوع پر مزید بات ہونی چاہیے کیونکہ ہم اپنی تاریخ کے ایک اہم دوراہے پر ہیں جہاں ہمیں اپنے کچھ اساسی مفروضات پر نظرثانی کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا بدل رہی ہے۔ دنیا بھر میں مقبولیت پسند لیکن منقسم سیاست نے جمہوری اقدار کے لئے بڑے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ منہ زور سرمائے اور شہری آزادیوں میں کشمکش کو سرد جنگ کے بعد سے کبھی ایسا کڑا امتحان درپیش نہیں ہوا۔ ہمارے ملک میں بظاہر ایک منتخب حکومت قائم ہو چکی ہے لیکن سیاسی پانیوں میں تلاطم کے آثار بدستور موجود ہیں۔ معاشی مشکلات کا کوہ گراں اپنی جگہ موجود ہے اور ایسے سیاسی استحکام کی راہ نہیں سوجھ رہی جس کی مدد سے ہم اپنے وفاق کی اکائیوں میں تعاون، معاشی طبقات میں بڑھتی ہوئی خلیج اور شناختی گروہوں میں اعتماد کے بحران پر قابو پا کر عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنا سکیں اور اقوام عالم میں اپنا جائز مقام حاصل کر سکیں۔ قراردادِ مقاصد نے بطور ایک قومی ریاست ہمارا ایک مخصوص تشخص متعین کیا جس کے آئینی، قانونی اور سیاسی اثرات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس قرار داد کے دو اہم کردار لیاقت علی خان شہید اور مولانا شبیر احمد عثمانی تھے۔ اس قرارداد کا مسودہ تیار کرنے میں مولانا شبیر احمد عثمانی کے کردار پر ایک گواہی تو لیاقت علی شہید کے سیکرٹری نواب صدیق علی خان نے اپنی کتاب ’بے تیغ سپاہی‘ میں دے رکھی ہے۔ دستور ساز اسمبلی کی کارروائی میں مولانا عثمانی کا مؤقف دستاویزی صورت میں موجود ہے، احمد بشیر مرحوم اور محترم عقیل عباس جعفری نے بھی اس ضمن میں تاریخی حوالے ارزاں کر رکھے ہیں۔ اس موضوع کو ایک اخباری کالم کے کوزہ تنک ظرف میں سمونا ممکن نہیں ہو گا چنانچہ خلاف معمول ایک مختصر سلسلہ مضامین قلم بند کرنا ہو گا۔ اس زحمت پر پڑھنے والوں سے معذرت۔
برادرِ صد احترام مجیب الرحمن شامی نے دعویٰ کیا ہے کہ قائداعظم نے وصیت کی تھی کہ مولانا شبیر احمد عثمانی انکی نماز جنازہ پڑھائیں گے۔ قائداعظم کی اس وصیت کا کوئی ثبوت، کوئی حوالہ دینے کی البتہ زحمت نہیں کی۔برادر بزرگ نے یہ بھی نہیں بتایا کہ 12 ستمبر کی صبح قائداعظم محمد علی جناح کی نماز جنازہ مولانا انیس الحسنین نے پڑھائی تھی جس میں سید ہاشم رضا اور سید کاظم رضا جیسے عمائدین نے شرکت فرمائی۔ اسی شام کراچی کی نمائش گراؤنڈ میں قائد اعظم کی نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی۔ تدفین کی ان دونوں رسوم کی ادائی میں مسلکی فرق کا تذکرہ بھی لاحاصل ہے۔
جون 2013ءمیں الجامعہ دارالعلوم کراچی کے سربراہ مفتی محمد رفیع عثمانی مرحوم نے واہ آرڈیننس فیکٹری میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ قائداعظم محمد علی جناح مولانا شبیر احمد عثمانی کو اپنا باپ کہتے تھے۔ رفیع عثمانی صاحب نے البتہ کوئی حوالہ یا شہادت پیش نہیں کی کہ بابائے قوم نے حضرت شبیر احمد عثمانی کو یہ رتبہ کب اور کہاں عطا فرمایا؟ قائداعظم زبان و بیان میں غایت درجہ محتاط اور کم آمیز انسان تھے۔ قائداعظم 1876ء میں پیدا ہوئے تھے۔ شبیر احمد عثمانی 11 اکتوبر 1887 کو بجنور میں پیدا ہوئے۔ قائداعظم سے بعید ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے سے دس برس چھوٹے شبیر عثمانی کو اپنا باپ قرار دیا ہو جن سے ان کی پہلی ملاقات 1944 میں ہوئی تھی۔
شبیر احمد عثمانی صاحب ابتدائی طور پر علمائے دیوبند سے منسلک تھے۔ 1930کی دہائی میں ان کے دیو بند کے کانگرس نواز علما سے اختلافات پیدا ہو گئے۔ انہوں نے 1944ء میں مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کی۔ 1945-46ء کی انتخابی مہم میں مسلم لیگ کی حمایت کی۔ 26 اکتوبر 1946ء کو انہوں نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی حامی جماعت جمعیت علمائے اسلام قائم کی۔ یہ سوال بہر صورت موجود ہے کہ مسلم لیگ کا حامی ہوتے ہوئے مولانا شبیر عثمانی کو ایک متوازی سیاسی جماعت قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ کیا انہیں قائد اعظم کی رہنمائی پر اعتماد نہیں تھا۔ اس کا جواب جاننے کے لئے سردار شوکت حیات کی کتاب A Nation that Lost its Soul (صفحہ 219) سے رجوع کرتے ہیں۔
’نامور دیوبندی عالم دین مولانا شبیر احمد عثمانی نے ایک رات خواب میں اپنے استاد محترم کو دیکھا۔ جنہوں نے انہیں بتایا کہ انہوں نے خواب میں حضور اکرم ؐ کو مدینہ میں اپنے گھر سے باہر آتے دیکھا۔ وہاں پر ہندوستان کے علما صف بستہ کھڑے تھے۔ قطار کی دوسری طرف ایک دبلا پتلا، یورپی لباس پہنے عمر رسیدہ آدمی ملاقات کا منتظر تھا۔ لوگوں نے کہا کہ وہ مسٹر جناح ہیں۔ نبی اکرم علما کی جانب سے منہ پھیر کر سیدھے جناح کی طرف گئے اور انہیں سینے سے لگا لیا۔ دورانِ خواب مولانا شبیر احمد عثمانی کو ان کے استاد نے حکم دیا کہ فوراً قائداعظم کے پاس جاؤ اور اس کے سیاسی مرید بن جاؤ۔ چنانچہ مولانا نے قائد اعظم سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ قائد نے نواب شمس الحسن، آفس سیکرٹری مسلم لیگ، کو قیام دہلی کے دوران مولانا کی مناسب دیکھ بھال کا حکم دیا۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ جنگ