ایف بی آر، ٹیکس اور اصلاحات : تحریر سلیم صافی


”ملکی محصولات کا حجم اوپر کی طرف گامزن ہے“ یہ دعویٰ ہمیشہ مالی سال کے آخر میں ہر حکومت اور ایف بی آر کی طرف سے آتا ہے لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اگر یہی بات ہے تو پھرجی ڈی پی کے تناسب کے حساب سے پچھلی تین دہائیوں سے محصولات کم و بیش ایک جگہ کیوں کھڑے ہیں۔ورلڈ بینک کی سفارشات کے مطابق کسی بھی ملک میں ترقی کی مناسب رفتار اور غربت میں کمی کیلئے محصولات کا تناسب مجموعی قومی پیداوار کا کم از کم پندرہ فی صد ہونا چاہیے۔ ہم آج دس اعشاریہ تین فی صد پر کھڑے ہیں جبکہ انیس سو ننانوے میں یہی شرح تیرہ اعشاریہ دو فی صد تھی۔ گویا پچھلی ربع صدی میں ہمارا سفر مجموعی طور پر پیچھے کی طرف رہا ہے۔ یہ اس کے باوجود ہوا ہے کہ ایف بی آر کی اصلاحات کے نام پر ہم نے بین الاقوامی اداروں سے کئی قرض اور امدادی پیکیج لیے۔ دو ہزار پانچ میں اس کام کیلئے جنرل مشرف کی حکومت نے ورلڈ بینک سے آج کے پیسوں میں تقریبا ًبتیس ارب روپے قرض لیے۔ہدف یہ تھا کہ ان پیسوں سے ایف بی آر کی کارکردگی بہتر بنا کر اسے زیادہ سے زیادہ محصولات اکٹھا کرنے کے قابل بنایا جائے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح بہتر کی جائے۔ رقم پانچ سال میں خرچ ہوئی اور محصولات کی شرح بڑھنے کی بجائے دو ہزار چار میں گیارہ اعشاریہ پانچ سے گھٹ کر آٹھ اعشاریہ چھ پر آگئی۔ اب شنید ہے کہ ایک بار پھر ایف بی آر میں اصلاحات کا ڈول ڈالا جارہا ہے۔ اللہ خیر کرے کہ اس دفعہ پانچ سال بعد کیا نتیجہ نکلے گا۔ اتنا البتہ معلوم ہے کہ ایف بی آر کے ترجمان اور وزارت خزانہ کے دعوے اسی طرح جاری رہیں گے کہ محصولات میں بڑھوتری ہورہی ہے۔ محصولات کے حجم میں انفلیشن کا بنیادی معاشی اعشاریہ چھپا کر یہ بزرجمہر اسی طرح اگلے سالوں میں بھی جون جولائی کے مہینوں میں قوم سے مذاق کرتے رہیں گے۔ ایف بی آر میں اصلاحات کے ضمن میں اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہدف کے تعین اور پھر حصول میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کو اولیت حاصل ہو اور یہ مغالطہ چھوڑ دیا جائے کہ اس سال پچھلے سال کی نسبت زیادہ ٹیکس جمع ہوا ہے۔

اصلاحات کے ضمن میں دوسرا ضروری سوال یہ ہے کہ ٹیکس کون جمع کرتا ہے؟ جتنا انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس جمع ہوتا ہے اس کا نوے فی صد سے زیادہ ٹیکس دہندگان رضاکارانہ طور پر جمع کرادیتے ہیں یا پھر ان کی تنخواہ یا خریدوفروخت کے موقع پر خودکار طریقے سے کٹ جاتا ہے۔ ایف بی آر سے کوئی پوچھے کہ پچیس ہزار ملازمین میں سے کتنے براہ راست ٹیکس چوروں سے ٹیکس کی برآمدگی میں مددگار ہیں۔ خودکار محصولات کے علاوہ کتنا ٹیکس انکے ملازمین کی کارکردگی کی وجہ سے براہ راست خزانے میں آتا ہے۔ کبھی حساب کتاب ہو تو پتہ چلے کہ اس بھاری بھرکم محکمے کے کتنے ونگز اپنی تنخواہ اور مراعات سے بھی کم ٹیکس براہ راست جمع کرتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بیوروکریسی کہیں بھی ہو ، اصلاحات میں اس کا پہلا ہدف اپنا سائز بڑھانا ہوتا ہے۔ اپنے لیے نئے عہدوں کی تخلیق میں اس طبقے کا جواب نہیں۔ اصلاحات کی کسی بھی نئی کوشش میں ضروری سمجھا جائے کہ موجودہ بیوروکریسی کا حجم کم کرکے زیادہ سے زیادہ انحصار انفارمیشن ٹیکنالوجی پر کیا جائے۔ اس معاملے میں حالیہ دنوں میں ٹریک اینڈ ٹریس نامی سسٹم کی ناکامی کو مدنظر رکھا جائے جس میں اپنے پاؤ بھر گوشت کی خاطر چند لوگوں نے اصلاحات کی پوری گائے ذبح کردی۔

محصولات کے نظام میں اصلاحات کی کوئی بھی نئی کوشش تب تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک پرانی کوششوں کی ناکامی سے سبق نہ سیکھا جائے۔ ورلڈ بینک کی دوہزار گیارہ کی رپورٹ کے مطابق ناکامیوں کے اسباب میں پالیسیوں میں ابہام، مناسب مہارت کار کی عدم دستیابی اور عمارات وغیرہ کی تعمیر پر زیادہ اخراجات شامل ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اصلاحات دھوم دھڑکے سے شروع کرلی گئیں لیکن پالیسی اور ایڈمنسٹریشن میں اس معاملے میں تفاوت تھا۔ سیاسی سطح پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی سیاسی قیمت کوئی ادا کرنے کو تیار نہیں تھا جبکہ ٹیکس کی انتظامی مشینری اس کے حساب سے ڈھال لی گئی۔ نتیجہ معلوم۔ ضروری قانونی اصلاحات نہ کی گئیں اور ملک میں بدلتے ہوئے سیکورٹی حالات کا ادراک اور اصلاحات میں ان کے حساب سے مناسب بدلاؤ نہ کیا گیا۔ ایف بی آر کے اندر اور باہر اس مزاحمت کا کما حقہ ادراک نہ کیا گیا جو اس قسم کی اصلاحات میں رکاوٹ بن سکتی تھی۔ پانچ سالہ دورانیے میں اصلاحات کے پورے پراسس کی جس قدر کڑی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے اس لحاظ سے کمزوریاں عیاں تھیں۔

پچھلے سال سے ہم سنتے آرہے ہیں کہ ورلڈ بینک اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے ایف بی آر میں ایک بار پھر اصلاحات کا نیا پروگرام شروع کیا جارہا ہے۔ نگران حکومت کی وزیر خزانہ تو ایک نقشہ چھوڑ کر گئی ہے جس پر شاید عمل درآمد کی تیاری ہے۔ ضروری ہے کہ اس بار ہم اپنے ماضی سے سبق سیکھیں۔

اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود ہماری سول سروس ریاستی بندوبست میں کلیدی کردار کی حامل ہے۔ فوج کی طرح سول سروس کی کمزوری بھی کوئی قابل ستائش بات نہیں۔ حالیہ دنوں میں ایف بی آر میں جو اکھاڑ پچھاڑ ہوئی ہے اس کا اصلاحات کے کسی پراسیس سے رابطہ سمجھ میں نہیں آیا۔ کئی جواز دیئے گئے ہیں لیکن اسلام آباد میں کئی لوگ تواتر سے الزام لگا رہے ہیں کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹوں کی آڑ میں حریفوں کو سائیڈ لائن کرنے اور ترقی اور عہدوں کی دوڑ سے باہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انٹیلی جنس رپورٹوں کا صرف ہوا بنایا گیا اور لسٹیں کہیں اور بنائی گئیں۔ جنہیں کچھ عرصہ قبل تمغے دیے گئے انہی کو ترقی کیلئے بلائی جانے والی ایک اہم میٹنگ سے قبل سائیڈ لائن کردیا گیا۔ ان میں موجودہ چیئرمین ایف بی آر سے زیادہ سینئر افسران بھی شامل بتائے جاتے ہیں۔ جن سینئر لوگوں پر الزامات لگائے گئے انہیں صفائی کا موقع دیے بغیر یکایک ترقی کی دوڑ سے ایک اہم موڑ پر الگ کردینا اصلاحات کا کوئی اچھا آغاز نہیں۔ اس سے مورال نیچے جائے گا اور محکمے کے اندر خوف اور شک کی فضا قائم ہوگی ۔ افسران کی باہمی سازشیں اور گروپ بندی شروع ہوجائے گی جس سے ملک، ٹیکس دہندگان اور محکمہ کہیں پیچھے رہ جائیں گے۔

وزیراعظم کو چاہیے کہ اس ادارے کے انتظامات پر خود بھی نظر رکھیں کیونکہ مانیٹری سائیڈ سے آنے والے وزیر خزانہ شاید فسکل سائیڈ اور اس میں افسر شاہی کی اندرون خانہ سیاست کو اس طرح سمجھ نہ سکیں۔ اصلاحات کیلئے قائم اعلیٰ سطحی کمیٹی پہلے ہی ان کی صدارت میں قائم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ کمیٹی صرف کاغذوں تک محدود نہ رہے، اس کا کام محصولات اور ایف بی آر کی پولیٹکل اکانومی کے ساتھ سنجیدہ نوعیت کا ربط ضبط اس کے کام میں شامل ہو۔

بشکریہ روزنامہ جنگ