دوسری جنگ عظیم کے بعد کے دور کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ پہلا حصہ جنگ عظیم کے بعد سے ساٹھ کے عشرے تک پر محیط ہے ۔ اسے جاسوسی(اسپیناج) کا دور کہا جاتا ہے ۔ اس عرصہ میں ملکوں کا زیادہ مقابلہ جاسوسی کے میدانوں میں ہوا کرتا تھا اور سی آئی اے، کے جی بی اور دیگر ملکوں کی ایجنسیاں ایک دوسرے کے راز چرانے اوروہاں پر اپنے ایجنٹوں سے کارروائیاں کرانے میں مگن رہتی تھیں۔دوسرا دورجو ساٹھ کے عشرے سے نوے کے عشرے تک پر محیط ہے کو سبوتاژکا دور کہا جاتا ہے ۔ اس دور میں انقلابات رونما ہوئے ۔ کمیونزم کو شکست ہوئی۔ سوویت یونین تقسیم ہوا۔ ایران میں انقلاب آیا وغیرہ ۔ تیسرا دور نوے کے بعد کا دور ہے جسے ذہنی تخریب کار (سبورژن) کا دور کہا جاتا ہے ۔ اس دور کا ہتھیار میڈیا ہے اس لئے اسے میڈیا ایج یعنی میڈیا کا دور بھی کہا جاتا ہے ۔ ٹی وی ، اخبار، فلم ، انٹرنیٹ، فیس بک، ٹویٹر، ٹک ٹاک اور دیگر متعلقہ چیزیں اس دور کے ہتھیار ہیں۔ جس کا ان چیزوں پر جتنا زیادہ کنٹرول ہے وہ اتنا کامیاب اور جو جتنا زیادہ اس کا شکار ہے وہ اتنا ناکام ہے۔
میڈیا کا یہ دور کچھ اچھائیاں ساتھ لے آیا تو اس کی وجہ سے آنے والی برائیوں کی بھی کمی نہیں ۔ ایک بڑا نقصان پورے بنی نوع انسان کو یہ پہنچ رہا ہے کہ اس کی خواہشات کی دنیا وسیع ہوگئی۔ دور دراز دیہات میں زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم لوگ اب میڈیا کے ذریعے بڑے شہروں کے عالی شان محلات کا نظارہ کرتے ہیں۔ اس طرح پاکستان جیسے غریب ملکوں میں مقیم لوگ روز ہر لمحہ دیکھتے ہیں کہ مغرب کی ترقی یافتہ دنیا میں لوگ کن سہولتوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ ہم جیسے پسماندہ ملکوں میں رہنے والے ترقی یافتہ ممالک کی رنگینیوں کو دیکھ کر سرد آہیں بھرتے ہیں ۔ اسی طرح فلسطین، کشمیر اور دیگر خطوں میں دم توڑتی انسانیت کے مناظر بھی روز دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اِدھر ڈسپرین کی گولی دستیاب نہیں اور ٹی وی وغیرہ پر ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کلوننگ کے ذریعے جانداروں کی تخلیق پر قادر ہوگئی ۔ اس صورت حال کی وجہ سے ہر انسان کے ذہن میں کشمکش برپا ہے ۔ اس کی خواہشات بڑھ رہی ہیں لیکن ان کی تکمیل کے ذرائع موجود نہیں ۔ وہ دنیا بھر کے تعیشات کو دیکھ رہا ہے لیکن خود انہیں تصرف میں نہیں لاسکتا ۔ وہ دنیا کے مختلف خطوں میں جاری مظالم کو دیکھتا ہے لیکن کچھ کر نہیں سکتا ۔ نتیجتاً وہ اعصابی تناؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذہنی امراض اور خود کشیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
میڈیاایج کا ایک نقصان یہ ہورہا ہے کہ کسی بھی ایشو ، کسی بھی قوم اور کسی بھی ملک کے بارے میں بیانیہ بنانے کا اختیار ان ملکوں اور قوتوں کے ہاتھ میں آگیا ہے جن کا میڈیا اور سوشل میڈیا پر قبضہ ہے ۔ جس کو وہ ہیرو بنانا چاہتے ہیں ہیرو بنا دیتے ہیں اور جس کو زیرو بنانا چاہتے ہیں زیرو بنا دیتے ہیں۔ مثلاً امریکہ جب افغانستان پر حملہ آور ہورہا تھا تو دنیا کو باور کرایا کہ سب سے بڑا مسئلہ افغانستان ہے اور آج جب بھلانا چاہا تو ساری دنیا اسے بھول گئی ۔ اسی طرح میڈیا کی وجہ سے وہ طاقتور اقوام اپنی اقدار کو بھی پھیلا رہی ہیں ۔ ان دنوں سب سے زیادہ ظلم فلسطین میں ہورہا ہے ۔ سب سے بڑا جارح اسرائیل ہے ۔ غزہ میں تڑپتے بچوں کو دیکھ کر خون کھول اٹھتا ہے لیکن میڈیا اور سوشل میڈیا کیلئے وہ نمبرون ایشو نہیں ۔ یہ کام جو اسرائیل کررہا ہے اگر ایران یا پاکستان جیسا کوئی ملک کرتا تو ان ذرائع ابلاغ کے ذریعے مغرب اسے جارح، دہشت گرد، انتہاپسند اور نہ جانے کیا کیاکچھ نہ بناتا تاہم مغرب آج بھی اسرائیل کی سرپرستی کررہا ہے اور الٹا اسے اچھا بچہ بھی باور کرارہا ہے ۔
یہ تو عالمی سطح پر میڈیا کےسُوئے استعمال کی کہانی ہے پاکستان کے اندر اس کی مزید کئی جہتیں ہیں۔ حسب عادت پاکستان میں میڈیا اور سوشل میڈیا کا حسنِ استعمال نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ اس کا سُوئے استعمال زوروں پر ہے ۔ کوئی روک ٹوک نہیں ۔ جس کے جی میں جو آتا ہے جھوٹ پھیلا دیا جاتا ہے ۔ لوگو ں کی عزتوں سے کھیلا جاتا ہے ۔ سوشل میڈیا کے زور سے ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو بنا دیا جاتا ہے ۔ نیک کو بد اور بدکو نیک مشہور کیا جاتا ہے ۔ بے حیائی کا پھیلاؤ زوروں پر ہے ۔ لیکن کوئی روک ٹوک نہیں ۔ اس وقت پاکستان کا ہر شہری رپورٹر ہے اور جس کے جی میں جو آتا ہے موبائل سامنے رکھ کر سوشل میڈیا پر ڈال دیتا ہے ۔ سوشل میڈیاکے اس غلط استعمال کی وجہ سے جہاں ذہنی انتشار بڑھ گیا ہے وہاں ہماری آئندہ نسلیں بھی تباہ ہورہی ہیں۔ لیکن ریاست کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کرے تو کیا کرے ۔ ریاست کچھ کرتی بھی ہے تو پابندیاں لگادیتی ہے حالانکہ پابندی نہیں بلکہ ریگولیشن اس کا حل ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ