کیا نریندر مودی بھارت کے گورباچوف ہیں؟ : تحریر وجیہ احمد صدیقی


دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کے ان انتخابات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ۔کیونکہ واضح طور پر یہ بات سامنے آگئی ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا دو قومی نظریہ درست تھا۔ بھارت کے اندرانتہا پسند ہندؤوں کی مسلمانوں کے ساتھ نفرت واضح طور پر سامنے آگئی ہے اور دیگر اقلیتوں کے لیے بھی وہاں کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ عیسائیوں کے تبلیغی مشن پر بھی اعتراضات کیے گئے ہیں اور ان کے گرجوں کو بھی نذر آتش کیا گیا ہے ۔سکھوں کے ساتھ امتیازی سلوک تو برسوں سے جاری ہے۔اب توسکھوں کو تو عملا غیر ملکوں میں قتل کروانے کی مہم جاری ہے۔اس نفرت اور تعصب کی وجہ یہ ہے کہ بھارت دارصل کئی ثقافتوں اور قومیتوں کا مجموعہ ہے اور یہ کہنا زیادہ درست ہوگاکہ بھارت دراصل کئی ممالک کا مجموعہ ہے جن کو جبراً ہندوتوا کے زور پر جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔نظر یہ آرہا ہے کہ اگر مودی جیت گئے تو اپوزیشن اتحاد دھاندلی کے خلاف جو احتجاج کرے گا وہ تاریخی ہوگا اور اگر مودی ہار گئے تو ان کی حیثیت وہی ہوگی جو پاکستان میں عمران خان کی ہے ۔ بی جے پی چونکہ ہندو تعصب کی بنیاد پر الیکشن لڑ رہی ہے تو اس کی شکست کے نتیجے میں بھارت کے اندر فسادات پھوٹ پڑیں گے بڑے پیمانے پر قتل عام ہوگا۔ جس کا افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قوی امکان ہے اور اس کا نتیجہ بھارت کی تقسیم کی صورت میں نکل سکتا ہے ۔ مودی بھارت کے گورباچوف ثابت ہوسکتے ہیں، جیسے گورباچوف سوویت یونین کے آخری سربراہ تھے اس کے بعد دنیا کے نقشے سے سوویت یونین کا خاتمہ ہوگیا تھا،گورباچوف نے سوویت یونین توڑ کر روس کو بچا لیا تھا لیکن یہاں مودی نے از خود بھارت کے سینے میں نفرت کا خنجر گھونپ دیا ہے جس کا نتیجہ نفرت کے سوا کچھ نہیں ہے۔بھارتی انتخابات میں مودی کے بیانات اسی تباہی کا اشارہ دے رہے ہیں ۔جس کے اثرات مستقبل میں پاکستان پر بھی آنے والے ہیں ۔
بھارت میں سات مرحلوں میں ہونے والے انتخابات کے دو مرحلے مکمل ہو چکے ہیں ۔اب7مئی کو تیسرےمرحلے کے انتخابات ہوں گے اور 13 مئی کو چوتھا مرحلہ 20 مئی کو پانچواں اور 25 مئی کو چھٹا اور یکم جو ن کو ساتواں مرحلہ مکمل ہوگا،اور 4 جون کو انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوگا ۔بھارت کے یہ انتخابات وزیراعظم نریندرمودی نے اسلام اور پاکستان دشمنی کی بنیاد پر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔مودی کے مقابلے میں اپوزیشن اتحاد جو کانگریس کی قیادت میں چل رہا ہے، اس کی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ لیکن مودی حکومت سے بھی لوگ تنگ آئے ہوئے ہیں۔ بھارت کی 13 ریاستوں میں اب تک انتخابات ہو چکے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ووٹرز کا ٹرن آؤٹ تقریباً 66 فیصد ہے ۔بھارت میں لوک سبھا کا وہی درجہ ہے جو پاکستان کی قومی اسمبلی کا ہے ۔اس کی کل 543 نشستیں ہیں اور 970 ملین یعنی 97 کروڑ ووٹر کے اراکین کا انتخاب براہ راست کرتے ہیں ۔2024 کے انتخابات میں سے 18 کروڑ نوجوان ہیں جو پہلی بار ووٹ ڈال رہے ہیں ۔بھارت کی 40 فیصد آبادی 25 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔بھارت ایک سیکولر ملک ہے اس لیے وہاں مذہب کی بنیاد پر ووٹرز کی تقسیم کا انتظام نہیں ہے لیکن مسلمان ووٹرز اپنے نام سے پہچانے جاتے ہیں ۔
اتنی بڑی آبادی میں بیلٹ پیپرز بھارتی انتخابات میں 55 لاکھ الیکٹرانک ووٹنگ مشین یعنی ای وی ایم استعمال ہوتی جو کہ مشکوک ہے۔ اس حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کی گئی ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو ضائع کردیا جائے۔ 10 لاکھ پولنگ اسٹیشنوں پر یہ 55 لاکھ مشینیں استعمال ہوں گی اور الیکشن کا عملہ ایک کروڑ 50 لاکھ ہے ۔پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ کئی مغربی اور یورپی ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشن کا تجربہ ناکام رہا ہے ،یہ خطرہ ہے کہ حکومت کوئی بھی سافٹ ویر استعمال کرکے الیکشن کے نتائج کو تبدیل کرسکتی ہے ۔
حکومت بنانے کے لیے لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے 272 پر کامیابی کی ضرورت ہوتی ہے یا پھر جیتنے والی جماعت نےکل نشستوں کا 50 فیصد حاصل کیا ہو ۔ لوک سبھا کل نشستیں 545 ہیں، دو نشستیں اینگلو انڈین نمائندوں کی ہوتی ہیں جن کو صدر بھارت نامزد کرتا ہے ۔بھارت میں صرف مخصوص نشستوں کی تعداد دو ہے پاکستان میں مخصوص نشستوں کی تعداد یعنی غیر منتخب نمائندوں کی تعداد 70ہے اور یہ جمہوریت کی نفی ہے کہ غیر منتخب نمائندے وہ اسمبلی کا حصہ بنیں۔ہونا تو یہ چاہیے کہ خواتین کی نشستوں کے لیے بھی الیکشن ہوں اورعوام سے رائے لی جانی چاہیے اور اقلیتوں کی نشستوں کے لیے بھی ،یعنی اقلیتوں کو اپنے نمائندےاسمبلی میں بھیجنے کے لیے خود منتخب کرنا چاہیے اور خواتین کو بھی اسمبلی میں اپنے نمائندے خود ہی بھیجنے چاہیے پارٹیوں کے درمیان میں یہ بندر بانٹ نہیں ہونی چاہیے ۔
گزشتہ دو مراحل میں 13 ریاستوں کے 26 اپریل کو الیکشن کے بعد صورت حال کا اندازہ لگانے کے بعد مودی نے اپوزیشن پر الزام لگایا کہ وہ ان کے خلاف فیک ویڈیو جاری کر رہی ہے اور سوشل میڈیا پر فساد برپا کر رہی ہے۔دراصل مودی اس الیکشن سے پریشان ہیں ۔انہیں اپنی کامیابی کی امید نہیں ہے ۔ اگرچہ بی جے پی کا دعوی ہے کہ وہ لوک سبھاکی 543 نشستوں میں 400 نشستیں حاصل کر لے گی ۔لیکن بھارتی تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ بی جے پی کو اس بار 200 سے بھی کم نشستیں حاصل ہو سکتی ہیں اور اگر بہت زیادہ ہوا تو 210 یا 215 نشستیں ان کو مل جائیں گی۔ مودی متوقع ناکامی کی وجہ سے بہت پریشان ہیں اور دس سال کے اقتدار کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مودی تھک گئے ہیں ۔ملک میں جاری اقتصادی بحران بھی ان کی پریشانی کی اصل وجہ ہے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں ۔
پہلے اور دوسرے مرحلے میں ووٹر ٹرن آؤٹ کے حوالے سے بھارت کےکئی اداروں نے مختلف سروے کیے ہیں اور متفرق جائزے لیے ہیں ایک سروے کے مطابق 66.7 فیصد کے درمیان ٹرن آؤٹ رہا اور مردوں نے خواتین کے مقابلے میں زیادہ حصہ لیا۔ مردوں کی ووٹنگ کی شرح پہلے مرحلے میں 66.22 اور خواتین کی ووٹنگ کی شرح66.07 اور دوسرے مرحلے میں مردوں کی ووٹنگ کی شرح 66.99 اور خواتین کی ووٹنگ کی شرح 66.42 تھی۔
مودی نے اپنی الیکشن کمپین کے لیے مذہبی کارڈ کا استعمال کیا ہے اس نے کہا ہے کہ 2024 میں کانگریس کا منشور مسلم لیگ کے منشور کی نقل ہے۔ یعنی کانگریس کو اس نے مسلم لیگ قرار دے دیا ہے۔ دراصل مودی کی غلطی یہ ہے کہ اس نے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو اپنا دشمن بنا لیا ہے ،بھارت نے مسلمانوں کی کل تعداد آبادی کے لحاظ سے 26 فیصد ہے۔ لیکن یہ مسلمان مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور مختلف حلقوں میں ان کے ووٹ نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں، بابری مسجد کو رام مندر بنانا اور اس کا وقت سے پہلے افتتاح کرنا ہندو ووٹروں کو تو لبھا سکتا ہے لیکن مسلمانوں کے اندر نفرت کے آثار مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ مثلاً تین طلاق کے حوالے سے اس کو ناجائز قرار دینا مودی گورنمنٹ کے لیے ایک عذاب بن گیا ہے ،کیونکہ یہ ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو مودی حکومت کے دوران کلیدی عہدوں نہیں رکھا گیا ۔
اتر پردیش میں بھارت کی انتخابی تاریخ کا سب سے کم ٹرن آؤٹ ہوا ہے یعنی 49.4 فیصد۔ مودی کو یہ معلوم ہے کہ مسلمان اسے ووٹ نہیں دیں گے۔ امریکی رسالے فارن پالیسی کے مطابق یہی وجہ ہے مسلم ووٹروں کے نام اس نے ووٹر لسٹ سے نکال دیے ہیں ۔کئی نوجوان مسلمانوں کے نام ووٹر لسٹوں میں شامل نہیں ہے۔ اسی طرح انہوں نے دلتوں کے نام بھی ووٹر لسٹوں سے غائب کیے ہیں۔ مجموعی طور پر کہا یہ جا رہا ہے کہ 120 ملین یا 12 کروڑ ووٹروں کے نام ووٹر لسٹ سے نکالے گئے ہیں ان میں دلت اور مسلمان شامل ہیں ۔ہر حلقے سے تقریبا 40 ہزار خواتین ووٹروں کے نام نکالے گئے ہیں ان میں دلت خواتین اور مسلمان خواتین شامل ہیں ۔ہر مسلم گھرانے میں 12 سے 15 ووٹر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مودی نے یہ شکایت کی کہ مسلمانوں کے بچے زیادہ ہوتے ہیں اور ایک گھر میں ان کے زیادہ سے زیادہ ووٹ ہوتے ہیں۔ بادل ناخواستہ بی جے پی نے چند مسلمانوں کو اپنی پارٹی میں شامل کیا جن میں سید شاہنواز حسین، مختار عباس نقوی اور ایم جے اکبر شامل ہیں۔ ایم جے اکبر کو وزیر مملکت برائے خارجہ بنایا لیکن اس کے ساتھ ہی ان پر خواتین کے جنسی استحصال کا الزام لگا اور وہ وزارت سے فارغ کر دیے گئے، اور مختار عباس نقوی کو راجیہ سبھا کی رکنیت ختم ہونے پر بی جے پی سے جانا پڑا ،اس الیکشن میں بی جے پی کے واحد مسلمان امیدوار 71 سالہ عبدالسلام ہیں جو کیرالہ کے مسلم اکثریتی حلقے ملا پورم سے کھڑےہوئےہیں اور یہ کیرالہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں ۔لیکن جو مسلمان بی جے پی کے ساتھ رہے جیسے مختار عباس نقوی ،ایم جے اکبر اور سید شاہنواز حسین ان کو بی جے پی نے الیکشن ٹکٹ نہیں دیا ۔ جب بی جے پی کے ذمہ داروں سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنے ان مسلمان ارکان کو ٹکٹ کیوں نہیں دیا تو جواب یہ تھا ان کوتو مسلمان بھی ووٹ نہیں دیں گے۔بی جے پی نے یہ تو سچ کہا کہ ان کو تو مسلمان بھی ووٹ نہیں دیں گے ۔لیکن کیا بی جے پی کے ٹکٹ پر کھڑے ہونے والا عبدالسلام بھی مسلمانوں کے ووٹ لے سکے گا؟