عدلیہ میں مداخلت کے لارجر بنچ کی دوسری سماعت بھی مکمل ہو گئی ہے۔سماعت کے حوالے سے ہر کوئی اپنی رائے دے سکتا ہے۔ لیکن ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں آیا۔ اس لیے کوئی بھی رائے قائم کرنا مشکل ہے۔ ابھی دیکھنا ہے کہ آگے سماعت کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ تاہم ابھی تک کی سماعت بھی کافی دلچسپ ہے۔
کچھ جج صاحبان کی یہ رائے بھی سامنے آئی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج صاحبان کی شکایات پر آنکھیں بند کر کے سخت کارروائی کی جائے۔ ان کے نزدیک یہ طے کرنا ضروری نہیں ہے کہ وہ سچ بول رہے ہیں یا نہیں۔ ان کی شکایت ہی ان کی سچائی کا ثبوت ہے ۔ اس لیے آنکھیں بند کر کے ملک کے حساس اداروں کے خلاف کاروائی شروع کر دینی چاہیے۔
بہرحال اسلام آباد ہائی کورٹس کے بعد ملک کی دیگر ہائی کورٹس نے بھی عدلیہ میں مداخلت روکنے کے حوالے سے تجاویز دی ہیں۔ یہ تجاویز بھی قوم کے سامنے آنی چاہیے۔ تاکہ قوم کو بھی علم ہو سکے کہ ہمارے ہائی کورٹس کے جج صاحبان عدلیہ میں مداخلت روکنے کے حوالے سے کس قسم کی سوچ رکھتے ہیں۔ یہ تجاویز سامنے آئیں گی تو ان کے بارے میں رائے دی جا سکے گی۔ ابھی تک جو خبر آئی ہے اس کے مطابق تو ہائی کورٹس کے جج صاحبان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط کی توثیق کی ہے اور اس معاملے میں ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے۔ بہرحال حمایت اور یکجہتی اپنی جگہ معاملہ کو حل کرنے کے لیے کیا تجاویز دی گئی ہیں۔ یہ زیادہ اہم بات ہے۔
یہ بات بھی درست ہے کہ عدلیہ میں مداخلت روکنے کے لیے ہائی کورٹس کے پاس بھی وہی اختیارات ہیں جو سپریم کورٹ کے پاس ہیں۔ ہائی کورٹ کے جج کے پاس بھی مداخلت روکنے کے وہی اختیارات ہیں جو سپریم کورٹ کے جج کے پاس ہیں۔ ہائی کورٹس بھی وہ کام کر سکتی ہیں جو سپریم کورٹ سے کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جو سوموٹو سپریم کورٹ نے خط پر لیا ہے وہی سو موٹو اسلام آباد ہائی کورٹ بھی لے سکتی تھی۔ جو تجاویز لاہور ہائی کورٹ نے دی ہیں۔
ان پر عمل لاہور ہائی کورٹ خود بھی کروا سکتی تھی۔ اس لیے ایسا نہیں ہے کہ عدلیہ میں مداخلت روکنے کے لیے سپریم کورٹ کے پاس کوئی خاص ایسے اختیارات ہیں جو ہائی کورٹس کے پاس نہیں ہیں اور سپریم کورٹ کوئی ایسا حکم دے سکتی ہے جو ہائی کورٹس نہیں دے سکتیں۔ اس لیے اسلام آباد ہا ئی کورٹس کے جج صاحبان کا سپریم کورٹ کو خط لکھنے کا مطلب یہی ہے کہ وہ یہ کام خود نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ملبہ سپریم کورٹ پر ڈال دیا۔
ویسے تو میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اس وقت عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان ایک محاذ آرائی چل رہی ہے۔ لیکن یہ کیوں ہے۔ میری رائے میں جس بات کے لیے عدلیہ میں مداخلت کی بات کی جا رہی ہے اس میں پاکستان کے عام شہریوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ پاکستان کے عام آدمی کے مقدمات کے لیے کوئی مداخلت نہیں ہے۔
اگر پاکستان کی عدلیہ عام آدمی کو انصاف نہیں دے سکتی تو اس میں اسٹبلشمنٹ کا کوئی قصور نہیں ہے اور نہ ہی اس ضمن میں مداخلت کا ایشو ہے۔اگر انصاف بک رہا ہے۔تو اس کا ذمے دار بھی حساس اداروں کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عدلیہ کی زبوں حالی کی ذمے داری کہیں نہ کہیں عدلیہ کو خود ہی اٹھانی ہوگی۔جہاں تک مجھے سمجھ ہے عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ کا تنازعہ تحریک انصاف کے چند مقدمات پر ہے۔
اگر بات کو مزید سادہ کیا جائے تو نو مئی کے ملزمان کے ساتھ ترجیحی سلوک کا تنازعہ ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سے جس طرح نو مئی کے ملزمان کو ریلیف ملا ہے شاید اسٹبلمشنٹ اس کو جائز نہیں سمجھتی۔ جس طرح جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں کو ریلیف ملا اسٹبلشمنٹ اس پر ناراض ہے اور اسٹبلشمنٹ اس کو جائز نہیں سمجھتی۔ سادہ بات ہے جس طرح شہر یار آفریدی کو ضمانتیں دی گئیں اس پر بات شروع ہوئی ہے۔ عدلیہ اور بالخصوص اسلام آباد ہائی کورٹ نے نو مئی کے بعد جس طرح چند سیاسی لوگوں کو ریلیف دیا ہے جو اسٹبلشمنٹ کے نزدیک ٹھیک نہیں تھا۔
اسٹبلشمنٹ کے نزدیک نو مئی کے ملزمان کسی رعایت کے مستحق نہیں ہے عدلیہ کے نزدیک ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے مقدمات کے سوا دیگر مقدمات میں مداخلت کی بات نہیں کی گئی۔میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ عدلیہ کی جانب سے تحریک انصاف کو غیر معمولی انصاف دیا گیا ہے۔
راتوں کو عدالتیں کھول کھول کر انصاف دیا گیا ہے۔ میرے اور آپ کے لیے تو رات کو عدالتیں نہیں کھولی جاتیں۔ فلسفہ قانون کے مطابق انصاف یکساں انصاف کے ترازو پر پورا نہ اترتا ہو۔غیر معمولی انصاف ہے۔ اگر ایک سیاسی جماعت سمجھے کہ اس کے مقدمات میں عدلیہ کا انصاف کچھ اور رہا ہے اور اب اس کی مدمقابل سیاسی جماعت کے لیے انصاف کا معیار کچھ اور ہے۔ تو اسے بھی غیر معمولی انصاف ہی کہیں گے۔ اگر ایک جماعت کو ضمانت نہیں ملتی رہی اور دوسری کو راتوں کو مل رہی ہے تو اس کو بھی یکساں انصاف نہیں کہیں گے۔
عام آدمی کے لیے تو کسی ڈی سی کو توہین عدالت میں سزا نہیں دی جاتی لیکن ایک مخصوص سیاسی جماعت اور نو مئی کے ملزمان کے لیے دی جاتی ہے تو سوال تو ہوگا۔ اگر ہم فوج کی سیاست میں مداخلت کے خلاف ہیں تو ججز کی سیاست میں مداخلت کے بھی خلاف ہیں۔ اگر ایک سیاستدان کے لیے عدلیہ کا معیار کچھ اور رہے اور دوسرے سیاستدان کے لیے معیار کچھ اور نظر آئے تو اسے بھی سیاست میں مداخلت ہی سمجھا جائے۔ مداخلت چاہے ہم خیال بنچ کی شکل میں ہو مانیٹرنگ جج کی شکل میں ہو رات کو عدالتیں کھول کر ضمانتیں دینے کی شکل میں ہو مداخلت مداخلت ہی ہے۔
مداخلت تو آئین سے ماورا فیصلوں کی شکل میں بھی ہوئی ہے۔ ایک سیاسی کھلاڑی کے لیے آئین سے تجاوز فیصلے بھی مداخلت ہی ہے۔ اس لیے مداخلت کی ہر شکل بند ہونا چاہیے۔ ایک جیسے مقدمات میں کسی کو سزا دینا اور کسی کو ریلیف دینے کے حوالے سے جوابدہی کا میکنزم ہونا چاہیے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس