ایران۔ پاکستان، بھارت گیس پائپ لائن کا کشمیر کنکشن : تحریر افتخار گیلانی


ابھی حال میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے پاکستان کے دورہ کے دوران بتایا گیا کہ کئی دہاؤں سے سرد خانے میں پڑی بین الملکی گیس پائپ لائن پر جلد ہی کام شروع کیا جائیگا۔ اصل منصوبہ کے مطابق ایران کے اسالویہ سے شروع ہوکر اس پائپ لائن کو پاکستان کے شہرملتان میں افغانستان کے راستے آرہی ترکمانستان گیس پائپ لائن کا ایک جنکشن بنا کر ، پھرآگے بھارتی پنجاب کے شہر فاضلکہ تک گیس سپلائی کرنی تھی۔مگر 2009میں امریکہ کے دباو اور ٹرانزٹ فیس کا بہانہ بنا کر بھارت اس سے دستبردار ہو گیا۔ امریکہ نے بھارت کو ایران سے گیس کی خریداری اور اسکو چاہ بہار کی بندر گاہ سے ایل پی جی کی صورت میں لوڈ کرنے کا استثنی دیا ہوا ہے۔ اس کا یہ کارگو امریکی پابندیوں کی زد میں نہیں آتا ہے۔ پاکستان نے امریکہ کی شدید مخالفت کی وجہ سے 2013سے اس پائپ لائن پر کام بند کیا ہوا تھا۔ ایران سے پائپ لائن کے ذریعے جنوبی ایشیاکو گیس لانے کا خاکہ گو کہ1950 سے ہی موجود تھا، مگر اس کو عملی جامہ پہنانے کا کام بھارتی وزیر اعظم نرسمہا راو نے1995میں انجام دیا۔2004 میں جب منی شنکر آئیر کو پیٹرولیم منسٹر بنایا گیا تھا، تو انہوں نے زیرک سفارت کار تلمیذ احمد کو اپنی وزارت میں ایڈیشنل سیکرٹری متعین کرکے ان کو اس کا انچارج بنادیا۔ مگرجب بھارت امریکہ کے درمیان جوہری معاہدہ پر دستخط کرنے کے سلسلے میں گفت و شنید شروع ہوگئی، تو اسکا پہلا خمیازآئیر کو ہی بھگتنا پڑا۔ ان کو اس وزارت سے فارغ کردیا گیا۔ نرسمہا راو کو اس پائپ لائن کی یاد کیوں اور کیسے آئی؟ اس کی ایک دلچسپ کہانی ہے اور اس کا کشمیر کے ساتھ ایک مضبوط کنکشن ہے۔ اسلامی کانفرنس تنظیم یعنی او آئی مارچ1994 کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن جس کو اب کونسل کہا جاتا ہے، میں پاکستان کی ایما پر ایک قرارداد لا رہی تھی، جس میں کشمیر میں انسانی حقوق کے حوالے سے بھارت کی مذمت کی جانے والی تھی۔فلسطین کے برعکس ان دنوںکشمیر کے معاملے پر مغربی ممالک ایک نرم گوشہ رکھتے تھے کیونکہ بھارت ابھی تک سوویت یونین، جو اب ٹوٹ چکا تھا کی لابی کے زیر اثر ہی مانا جاتا تھا۔ قرار داد کی منظوری کی صورت میں اس کو سلامتی کونسل میں لے جانے کا منصوبہ تھا، جہاں امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک بھارت پر اقتصادی پابندیاں عاید کرنے کے فراق میں تھے۔ اسلامی کانفرنس تنظیم کے مندوبین اس قرار داد کو حتمی شکل دینے کیلئے جنیوا میں مل رہے تھے۔ بھارتی وزیر خارجہ دنیش سنگھ ان دنوں خاصے علیل تھے اور نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل تھے۔ میٹنگ سے چند روز قبل وزیر اعظم راو رات گئے اپنے وزیر خارجہ کی خیرو عافیت دریافت کرنے اسپتال پہنچے۔ کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ اگلے24 گھنٹے دنیش سنگھ کے بیڈ پر ان کے بجائے کوئی اور لیٹا ہوا تھا۔ راو بیڈ اور ڈاکٹر سمیت دنیش سنگھ کو اپنے ساتھ ہی لیکر گئے اور ان کو بھارتی فضائیہ کے ایک طیارہ میں سوار کراکے ان کوایرانی صدر کے نام ایک خفیہ پیغام دیا۔ ادھر اگلے روز اعلا ن کیا گیا کہ جنیوا جانے والے بھارتی وفد کی قیادت اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی کریں گے۔ اس وفد میں نائب وزیر خارجہ سلمان خورشید اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو بھی شامل کیا گیا۔یہ توجہ ہٹانے کیلئے ایک اہم قدم تھا۔ مارچ1994 کی صبح طہران ہوائی اڈہ پر جب بھارتی فضائیہ کا طیارہ اترا، تواسپتال کے بیڈ پر لیٹے دنیش سنگھ اس میں ڈاکٹر سمیت نمودار ہوگئے۔ ایرانی وزیر خارجہ علی اکبر ولایتی جو اس وقت خود ہی ایرپورٹ پرآئے تھے، بھی حیران تھے، کہ ایسی کیا افتاد آن پڑی تھی کہ بھارتی وزیر خارجہ کو ایسی حالت میں طہران آنا پڑا۔ خیر سنگھ نے ایرانی صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کووزیر اعظم راو کا خط پہنچادیا اور پھر صدر کی ہی استدعا پر اسپیکر ناطق نوری سے ملاقات کرکے رات کو واپس اسپتال میں اپنے بستر پر آن پہنچے ۔راؤکو معلوم ہو گیا تھا کہ اگر قرار داد جنیوا میں منظور ہو جاتی ہے اور پھر سلامتی کونسل میں پہنچ جاتی ہے، تو اس وقت روس اس کو ویٹو کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد روس ابھی تک اپنے زخم چاٹ رہا تھا۔ ادھر بھارت کی معاشی صورت حال بھی کچھ بہتر نہیں تھی، چند سال قبل ہی بینک آف انگلینڈ میں قومی خزانہ کا سونا گروی رکھا گیا تھا۔ وزیراعظم راؤکے اس خفیہ خط کے مندرجات، جس نے ایران کو قرارداد سے ہاتھ کھنچنے پر مجبور کردیا ،کے بار ے میں ابھی تک کوئی معلومات نہیں ہے۔ یہ ابھی بھی کسی بارسوخ تفتیشی صحافی یا کسی سفارت کار کی کتاب کا منتظر ہے بھارت کے ایک سابق سفارت کار بھدرا کمار کے مطابق راؤ نے ناوابستگی کا حوالہ دیکر رفسنجانی سے درخواست کی تھی کہ مغربی ممالک کے استعمار سے وہ بھارت کو اس وقت بچائے۔ پاکستان کے بعد اگر کوئی ملک اس وقت کشمیر کے سلسلے میں عملی طور پرخاصا فعال تھا وہ ایران ہی تھا۔کمار کے مطابق راؤ کو معلوم تھا کہ ، اسلامی کانفرنس تنظیم میں ووٹنگ کے بجائے اتفاق رائے سے فیصلے ہوتے ہیں، یعنی اگر ایک ملک بھی تحفظات ظاہر کرتا ہے، تو قرار داد منظور نہیں ہوتی ہے۔چار دن بعد خبر آگئی کہ اسلامی کانفرنس تنظیم میں قرار داد کے حوالے سے اختلافات پیدا ہوگئے ہیں، ایران نے کسی ایسی قرارداد کی حمایت کرنے سے انکار کیا ہے، جس سے مغربی دنیا کو کوئی فائدہ پہنچے۔ دہلی میں پاکستانی سفیر ریاض کھوکھر، حریت لیڈران سبھی گم سم تھے۔ ایرانی سفیر کو خود پتہ نہیں تھا کہ طہران میں کیا کھچڑی پک گئی ہے، مگر وہ بار بار یہ یقین دہائی کرارہے تھے کہ اس کے بدلے میں بھارت نے کشمیر اور خطے کے حوالے سے ایک بڑی پیشکش کی ہے، جس کو ٹھکرانا اچھا نہ ہوگا۔ اس سے زیادہ شاید ان کو بھی پتہ نہیں تھا۔ رات گئے جب گیلانی صاحب ان سے انکی جور باغ رہائش گاہ پر ملنے پہنچ گئے تھے، تو راستہ گائیڈ کرنے کیلئے مجھے بھی اپنے ساتھ لے کر گئے تھے۔ بعد میں ایران۔پاکستان۔انڈیا گیس پائپ لائن کی بساط بچھائی گئی اور اسکو امن کی پائپ لائن کا نام دیا گیا۔ چند ماہ بعد جب وزیر اعظم نرسمہا راو ناوابستہ ممالک کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کیلئے افریقی ملک برکانہ فاسو جا رہے تھے، تو انہوں نے کہا کہ کشمیر کے حتمی حل کیلئے آزادی سے کم کسی بھی اوپشن پر بات چیت کی جاسکتی ہے۔ ان کا انگریزی میں جملہ اسکائی از دی لمٹ فار کشمیر SKY IS THE LIMIT FOR KASHMIR بہت مشہور ہوا۔ مگر بعد میں پائپ لائن نہ اسکائی از دی لمٹ فار کشمیر پر ہی کوئی پیش رفت ہوسکی۔ عالمی دباو کے ہٹتے ہی ان دونوں کو دفن کر دیا گیا۔ جنیوا میں ایران کو منانے کا کریڈٹ ہمیشہ واجپائی اور فاروق عبداللہ لیتے رہے۔ نرسمہا راؤ نے جیتے جی یہ کریڈٹ ان سے چھیننے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ مگر ان لیڈروں کے جنیوا روانگی سے دو روز قبل ہی راو کی ایما پر علیل دنیش سنگھ نے طہران میں پوری گیم بدل دی تھی، جو ایک ٹاپ سیکرٹ آپریشن تھا ۔ دنیش سنگھ کا یہ آخری غیر ملکی دورہ تھا، اور کئی ماہ بعد وہ انتقال کرگئے۔

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز