پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں کچھ مسائل زیادہ سنگین ہیں اور کچھ مسائل کم سنگین ہیں۔ مثلاخسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے سنگین مسائل میں سے ایک ہے۔ لیکن اس کا حل موجود ہے۔
حکومت ان سرکاری اداروں کی نجکاری کردے اور ان سے جان چھڑالے۔اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو یہ اس کی مرضی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہیاس مسئلہ کا حل موجود ہے۔ اسی طرح پاکستان میں ٹیکسز کی ریکوری بھی ایک مسئلہ ہے۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جب تک ایف بی آر میں اصلاحات نہیں کی جائیں گی ملک میں ٹیکس سسٹم ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ ایف بی آر کے ایک سابق چیئرمین کاتو موقف تھا کہ اگر ایف بی آر کے تمام ملازمین کو گھر بٹھادیا جائے تب بھی ایف بی آر کی جانب سے اکٹھے کیے گئے ٹیکس میں کوئی کمی نہیں آئے گی بلکہ ہو سکتا ہے کہ ٹیکس کا حجم بڑھ ہی جائے گا۔ یہ ایک اچھا طنز ہے اور اس سے یہ بات سب کو سمجھ آ جاتی ہے کہ مسئلے کی اصل جڑ کیا ہے۔مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
ایف بی آر میں اصلاحات لانے کے لیے آئی ایم ایف اور دیگر ٹیکس دینے والے ادارے بھی حکومت پاکستان پر زور ڈالتے ہیں۔ ان کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ پاکستان اپنی آمدنی بڑھائے اور آمدنی تب ہی بڑھ سکتی ہے جب ٹیکسز کا حجم بڑھے گا۔ اسی تناظر میں ایف بی آر میں ایک آپریشن کلین اپ شروع کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں بارہ سینئر ترین افسران کو کرپٹ اور نا اہل ڈیکلئر کر کے کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔کھڈے لائن لگنے والے افسران کے نام آپ سب تک پہنچ گئے ہوں گے کیونکہ یہ نام تمام اخبارات میں شایع ہو چکے ہیں اور سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں۔
بہرحال حکومت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملک کی تین بڑی خفیہ ایجنسیوں سے ایف بی آر کے افسران کے بارے میں رپورٹ منگوائی گئی۔ اس رپورٹ کی روشنی میں ان بارہ افسران کو اوایس ڈی بنایا گیا ہے اور ان سے مزید کام نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ابھی حکومت پاکستان ان افسران کو گھر بٹھا کر تنخواہ دے گی۔
بہرحال سرکاری ملازموں کو نوکری سے نکالنے کا قانون میں طریقہ درج ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹس پر کسی اعلی سرکاری افسر کو نوکری سے نہیں نکالا جا سکتا۔فوری طور پر صرف کھڈے لائن ہی لگایا جا سکتا ہے۔نوکری سے فارغ کرنے کا پراسس الگ ہے۔اب حکومت کیا کرتی ہے یہ دیکھنا ہو گا۔
ایک بحث اس سارے عمل کی شفافیت پر شروع ہوئی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ صرف بارہ سینئر افسران ہی ساری تباہی کے ذمے دار ہوں اور ان سے اوپر افسران ساری تباہی سے بری الذمے ہو جائیں۔ یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آ رہی کہ ممبر لیگل اور ممبر پالیسی جن کے پاس عملی اختیارات نہیں ہوتے وہ ساری تباہی کے ذمے دار کیسے ہو سکتے ہیں۔ جب کہ باقی اعلی عہدیدار کیسے بے گناہ یا بری الذمے ہو سکتے ہیں۔یہ بات سمجھ نہیں آ رہی۔ہو سکتا ہے آگے مزید کارروائی بھی ہو۔
جن افسران کو کھڈے لائن لگایا گیا ہے میں ان کا وکیل نہیں ہوں۔ میں ان کو بے قصور بھی نہیں سمجھتا۔ میری رائے میں وہ کوئی معصوم نہیں ہیں۔ میں ان کو بے گناہ قرار دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہوں۔ یقینا ان کا بھی قصور ہوگا۔ ممبر پالیسی نے یقینا غلط پالیسیاں بنائی ہوں گی۔ انھیں اس کا قصوروار ٹھہرانا چاہیے۔ لیکن ان پالیسیوں کو منظور کرنے والوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟
کیا اس حوالے سے بھی کوئی فیصلہ نہیں ہونا چاہیے تھا؟ ممبر لا بہت کرپٹ ہوں گے۔ انھوں نے ایف بی آر کے مقدمات میں قانونی پیروی درست انداز میں نہیں کی ہوگی۔اگر ایسا ثابت ہے تو پھر انھیں سزا دینی چاہیے۔ لیکن یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ یہ مقدمات کیوں درج ہوئے اس کا بھی تو کوئی ذمے دار ہوگا۔ اس کی بھی تو کوئی سزا ہونی چاہیے۔
ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی ناکامی کی بہت بات ہو رہی ہے۔ میں خود بھی سمجھتا ہوں کہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی ناکامی نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یہ ناکارہ سسٹم لگانے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سسٹم کی ناکامی کے تناظر میں مانیٹرنگ ٹیموں کی کارکردگی بھی دیکھنی چاہیے اگر مانیٹرنگ ٹیمیں مستعدد اور اہل ہوتیں تو اتنی تباہی نہ ہوتی۔ یہ مانیٹرنگ ٹیمیں کون لگاتا تھا؟ کس کی ناک تلے یہ سب کچھ ہوتا رہا اس پر غور ہونا چاہیے اوربروقت فیصلہ بھی ہونا چاہیے۔
آج ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی ناکامی کی بہت بات کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے اس پر بہت برہمی کا اظہار کیا ہے لیکن بات صرف ناکارہ سسٹم کی نہیں ہے بلکہ اس کو ناکارہ بنانے والوں کی بھی ہے۔
جس جس نے کرپشن کے حمام میں غسل لیا ہے وہ کیسے معصوم ہو سکتے ہیں۔ کھڈے لائن بننے والے ایک افسر کے بارے میں مجھے بتایا گیا کہ یہ تو کسی اہم شخصیت کا قریبی ہے۔ میں نے کہا اچھی بات ہے کہ قریبی بھی قانون شکنجے میں آ گئے ہیں۔ اس نے کہاوہ تو واپس آجائے گا۔ میں نے کہاایسا ہوا تو پھر یہ افسوسناک ہوگا۔ احتساب کے اس سلسلہ کو آگے بڑھناہیے۔
پی او ایس سسٹم کی ناکامی پر بھی بہت سے سوالات ہیں۔ تاجروں اور صنعتکاروں سے ٹیکس لینے میں ناکامی کی ذمے داری کس پر ڈالیں؟اس حوالے سے بھی پیشرفت ہونی چاہیے تاکہ اصلاحات کا دائرہ زیادہ وسیع ہو سکے یہاں میں ایک بار پھرواضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں کسی کا وکیل نہیں ہوں۔
میں تو اس افسر کا بھی وکیل نہیں ہوں جس کو حال ہی میں حکومت نے خصوصی اعزا ز دیا ہے۔ لیکن میں ٹارگٹڈ احتساب کو انتقام ہی سمجھتا ہوں۔ میری رائے میں عالمی اصولوں کے مطابق احتساب یکساں ہونا چاہیے۔اسے ہی انصاف کہا جائے گا۔احتساب کسی کو بچانے اور کسی کو مارنے کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔ اوپر سے شروع ہونا چاہیے اور پھر نیچے تک آنا چاہیے۔ قربانی کے بکرے تلاش کر کے احتساب نہیں ہو سکتا۔ایسا کرنے سے اصلاحات بھی نہیں ہوں گی۔
بہر حال ایف بی آر میں آپریشن کلین اپ وقت کی ضرورت ہے۔ کالی بھیڑوں کو گھر بھیجنا ہے۔لیکن اگر ایک بھی کالی بھیڑ بچ گئی تو نتائج نہیں آئیں گے کیونکہ مشہور محاورہ ہے کہ ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو گندا کرتی ہے۔ اس لیے تالاب میں ایک بھی گندی مچھلی نہیں بچنی چاہیے تاکہ تالاب کا پانی صاف اور شفاف رہے۔
پاکستان کے ٹیکس سسٹم میں اصلاحات لانا وقت کی اہم ضرورت ہے اگر اعلی سرکاری افسران کو اختیارات دیے گئے ہیں تو پھراختیارات سے تجاوز کرنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے کے بارے میں بھی جواب دہی کا غیر مبہم واضح اور شفاف قانون بھی ہونا چاہیے تاکہ اختیارات کے ساتھ جواب دہی بھی ہو سکے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس