لندن کے پاکستان نژاد برطانوی مسلمان میئر جناب صادق خان ، نے ایک تازہ انٹرویو میں کہا ہے : پاکستانی نژاد اور مسلمان ہونے کے سبب مجھے نسل پرستانہ مہم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ لندن میں میرے حریف سیاستدان ووٹروں کو یہ کہہ کر ڈرا رہے ہیں کہ میں پاکستانی اور مسلمان ہوں، اس لیے ووٹ احتیاط سے دیجیے۔ لندن میں مرکزی دھارے کے سیاستدان میرے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔منفی اور مسموم پروپیگنڈا کرکے غیر مسلموں کو مسلمانوں سے ڈرانے کی (ناکام) کوشش کی جارہی ہے۔ ۔
53سالہ جناب ِ صادق خان پچھلے آٹھ سال سے مسلسل ایک کروڑ آبادی کے حامل شہر لندن کے باوقار میئر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے چلے آرہے ہیں ۔ وہ دو بار لندن ایسے طاقتور ، خوشحال اور عالمی شہرت یافتہ شہر کے میئر منتخب ہو چکے ہیں اور اب تیسری بار بھی منتخب ہونے کی تمنا رکھتے ہیں۔ آٹھ برس قبل (2016میں) جب جناب صادق خان پہلی بار لندن کے میئر منتخب ہوئے تھے تو ہم سب پاکستانیوں کے دل مسرت و شادمانی سے سرشار ہو گئے تھے ۔
اگرچہ ہم پاکستانیوں کو بحیثیتِ مجموعی، صادق خان صاحب کی شخصیت، نظریات اور سیاست و اقتدار سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ لیکن چونکہ ان کی رگوں میں پاکستانی خون گردش کرتا ہے، اس لیے ہم سب ان کی کامیابی پرخوش ہوئے تھے۔ چھ سال قبل حکومتِ پاکستان نے انھیں ستارہ امتیاز کے تمغے سے نوازا تھا۔ صادق خان صاحب نے زیک گولڈ اسمتھ ایسے دولتمند برطانوی یہودی کو ہرایا تھا۔
واضح رہے زیک گولڈ اسمتھ ہمارے عمران خان صاحب کے برادرِ نسبتی رہے ہیں۔ لندن میں میئر کے انتخابات کے موقع پر جناب عمران خان زیک گولڈ اسمتھ کی حمایت کرتے پائے گئے تھے۔
چار دن بعد،2مئی2024 کو، لندن میئر کے لیے انتخابات ہو رہے ہیں ۔ لیبر پارٹی کے امیدوار صادق خان صاحب ہیں ، جب کہ ان کے مقابل کنزرویٹو پارٹی کی سوسن ہال (Susan Hall) کھڑی ہیں ۔ گرین پارٹی کی زو گارنٹ ، لبرل ڈیمو کریٹ پارٹی کے روب بلیکی،ریفارم پارٹی کے ہاورڈ کوکس،سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کی ایمی گالگہر،برٹن فرسٹ پارٹی کے نک سکینلن،اینیمل ویلفیئر پارٹی کی فیمی ایمن اورلندن رئیل پارٹی کے برائن روز کے علاوہ چار آزاد امیدوار بھی میدان میں ہیں ۔
لندن کا میئر ایک شاندار اور طاقتور عہدہ ہے۔ لندن کی پولیس ، ٹرانسپورٹ ،ہاوسنگ، پلاننگ، اکنامک ڈویلپمنٹ ،آرٹس ، کلچر اور انوائرمنٹ ایسے بنیادی اور بڑے شہری شعبے اس کی ذمے داری ہوتے ہیں ۔یعنی لندنی شہریوں کی زندگیاں لندنی میئر کے فیصلوں اور خدمات کے ارد گرد گھومتی ہیں ۔
تقریبا 14لاکھ مسلمان لندن میں بستے ہیں ۔ اور لندن میں تقریبا ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مساجد آباد ہیں ۔ برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلیگراف کی ایک رپورٹ کے مطابق: پچھلے دو برسوں کے دوران لندن میں ساڑھے چار سو نئی مساجد تعمیر کی گئی ہیں۔ یہ لندنی مسلمان اور مساجد جناب صادق خان کی طاقت ہیں ۔ اگرچہ بہت سے لندنی غیر مسلم بھی ان کے ووٹرز ہیں ۔ جناب صادق خان مزدور پیشہ خاندان میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد صاحب، امان اللہ خان، لندن میں بس ڈرائیور تھے اور ان کی والدہ صاحبہ درزن ۔ صادق خان کے آٹھ بہن بھائی تھے اور خاندان کی یافت کم تھی، اس لیے خود صادق خان اوائلِ جوانی میں ، تعلیم کے ساتھ ساتھ،مزدوری کرتے رہے ہیں۔
انھیں اپنے محنت کش خاندان پر فخر ہے ۔تاریخ اور حالات کا عجب جبر ہے کہ آج لندن کا میئر ایک پاکستانی نژاد مسلمان ہے تو پورے برطانیہ کا وزیر اعظم ایک بھارتی نژاد ہندو ( رشی سونک) ہے۔ حیرت کی بات مگر یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے ناتے جو شکوے صادق خان صاحب کرتے سنائی دے رہے ہیں، ہندو ہونے کے ناتے ویسے ہی شکوے رشی سونک کرتے سنائی نہیں دے رہے ۔ تو کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ تیسری بار لندنی میئر منتخب ہونے کے لیے صادق خان ، دانستہ، پروانہ مظلومیت (Victim Card) استعمال کررہے ہیں ؟
ہم پاکستانی بھی حیرت انگیز مخلوق ہیں۔ ہم پاکستان میں مطمئن اور خوش ہیں نہ برطانیہ میں ۔ گلے شکوے ہماری عادتِ ثانیہ بن چکے ہیں ۔ برطانیہ اور امریکا میں ہم اسلامو فوبیا کا راگ الاپتے رہتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ و امریکا میں پاکستان سے کہیں زیادہ مذہبی و سماجی و سیاسی اور معاشی آزادیاں میسر ہیں۔ برطانیہ و امریکا کی شہریتیں بھی ہمیں چاہئیں۔ پھر بھی ہمارے گلے شکوے کم نہیں ہوتے ۔ جناب صادق خان کی رگوں میں بھی چونکہ ایک پاکستانی کا خون دوڑتا ہے، اس لیے جبلی طور پر وہ بھی شکووں کی آہیں بھر رہے ہیں ۔
انھیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان کے والد صاحب پاکستان سے معاشی ہجرت کرکے برطانیہ جا بسے اور صادق خان کو قانون کی اعلی تعلیم کے مواقع بھی میسر آئے اور وہ مسلسل محنت، سیاسی خدمات اور منصفانہ ماحول میں ترقی کے زینے چڑھتے ہوئے لندن کے دو بار میئر منتخب ہو گئے۔ کیا پاکستان میں کسی بس ڈرائیور اور درزن کا بیٹا کبھی خواب بھی دیکھنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ وہ لاہور، کراچی ، اسلام آباد ایسے کاسمو پولیٹن شہر کا میئر منتخب ہو جائے ؟
اِس بات سے انکار نہیں ہے کہ جناب صادق خان کو لندن میں کئی خطرات کا سامنا ہے ۔ انھیں مبینہ قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں ۔ لندن کے شدت پسند مسلمان صادق خان سے اس لیے شدید ناراض ہیں کہ صادق خان نے ہم جنس پرستوں کے حق میں بننے والے قانون کی حمایت کیوں کی ؟مبینہ طور پر اِنہی کی جانب سے صادق خان کو دھمکیاں دی گئیں ۔ وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ انھیں جو قتل کی دھمکیاں ملیں، انھوں نے ان کی ذہنی صحت کو بے حد متاثر کیا ۔
ان کے دوبار لندن کے میئر منتخب ہونے کی وجہ سے ان کے بہت سے مقامی اور بین الاقوامی سیاسی مخالفین بھی پیدا ہو چکے ہیں ۔ مخالف پارٹی (کنزرویٹو) کے رکنLee Andersonنے صادق خان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے: وہ متشدد اسلام پسندوں کے کنٹرول میں آ چکے ہیں۔ میئر کے انتخابات میں ان کی حریف، سوسن ہال، نے گزشتہ روز سیاسی بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صادق خان کے خلاف ایک جعلی اشتہار بھی جاری کر دیا تھا۔ اور جب صادق خان نے اسے عدالت میں لے جانے کی دھمکی دی تو سوسن ہال نے فوری طور پر سوشل میڈیا پر اشتہار ڈیلیٹ کر دیا ۔
یاد کیجیے چند سال قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور صادق خان کے درمیان سخت الفاظ کی گولہ باری ہوئی تھی ۔ اور جب ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ مسلمانوں کے امریکا آنے پر پابندی عائد کر دینی چاہیے تو صادق خان صاحب نے اِس کی مذمت کرتے ہوئے امریکی صدر کو بیہودہ شخص کہہ ڈالا تھا ۔یہ جنگ اتنی بڑھ گئی تھی کہ ٹرمپ نے یہاں تک کہہ دیا کہ جب میں لندن کے دورے پر آوں تو میرے استقبالیہ میںصادق خان کو موجود نہیں ہونا چاہیے ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سیاست و اقتدار کی جنگ میں تو ایسا ہوتا ہی ہے۔
صادق خان کو شکوہ کناں ہونے کے بجائے، حسبِ سابق، جرات و دلاوری کے ساتھ اپنے مخالفین کے حربوں اور ہتھکنڈوں کو کند کرنا چاہیے ۔ لندن شہر کے ایک کروڑ مکینوں کے لیے ان کی خدمات نہایت شاندار ہیں۔26اپریل 2024کو انھوں نے ٹی وی ڈبیٹ میں اپنی حریف، سوسن ہال ، کو شکست دی ہے ۔اللہ انھیں تیسری بار بھی میئر کی انتخابی جنگ میں کامیابی سے نوازے گا ۔ ہماری جملہ دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس