اسلام آباد ہائیکورٹ کا کسی بھی مداخلت پر ادارہ جاتی رسپانس دینے کا فیصلہ

اسلا م آباد(صباح نیوز)اسلام آباد ہائیکورٹ  نے کسی بھی مداخلت پر ادارہ جاتی رسپانس دینے کا فیصلہ کرلیا۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا فل کورٹ اجلاس ہوا جس میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شریک ہوئیں۔اجلاس میں خط پر دستخط نہ کرنے والے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بھی شریک ہوئے ،

ذرائع کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کا فل کورٹ اجلاس خوشگوار ماحول میں ہوا۔ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں عدالت عالیہ کے تمام ججوں، وفاقی دارالحکومت کے ایسٹ اور ویسٹ کے دو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کی تجاویز پر غور کیا گیا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ڈھائی گھنٹے تک جاری رہا، جس میں سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھنے والے 6 ججوں سمیت 8 ججوں نے شرکت کی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز اجلاس میں شریک ہوئے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہونے والے فل کورٹ اجلاس میں ججز کو ملنے والے دھمکی آمیز خط پر ججز نے اہم فیصلہ کیا ہے جس کے مطابق مستقبل میں کسی بھی مداخلت پر متفقہ ردعمل دینے پر اتفاق کیا گیا ہے۔فل کورٹ اجلاس کی اندرونی کہانی کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ متفقہ تجاویز سپریم کورٹ کو بھیجے گی جس کا ڈرافٹ مقررہ تاریخ سے قبل ارسال کیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق فل کورٹ اجلاس میں تجاویز پر کوئی اختلاف سامنے نہیں آیا ،ذرائع نے بتایاکہ فل کورٹ اجلاس میں سامنے آنے والی تجاویز کو ڈرافٹ کی شکل دی جائے گی اور اسلام آباد ہائیکورٹ متفقہ تجاویز سپریم کورٹ کو بھیجے گی، تجاویز کا ڈرافٹ تیار کرکے مقررہ تاریخ سے پہلے سپریم کورٹ کو بھجوایا جائے گا۔

یاد رہے کہ 26 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا جس میں عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت کا الزام عائد کیا تھا، ججز نے اس معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل سے رہنمائی مانگی تھی۔اس معاملے پر پہلے وزیراعظم نے چیف جسٹس کی مشاورت سے انکوائری کمیشن بنایا تھا تاہم تصدق جیلانی نے سربراہی سے انکار کردیا تھا لیکن بعد میں چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لے کر کیس سماعت کیلئے  مقرر کردیا تھا۔سپریم کورٹ نے ہائیکورٹس ججز کے خط کے معاملے پر تجاویز طلب کی تھیں