سپریم کورٹ کاوفاقی حکومت کو ایف بی آر آرڈیننس 2007کے تحت فوری طور پر پالیسی بورڈ بنانے کا حکم

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی حکومت کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کے پالیسی معاملات کے حوالہ سے ایف بی آر آرڈیننس 2007کے تحت فوری طور پر پالیسی بورڈ بنانے کا حکم دیا ہے۔عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر منصور عثمان اعوان سے فنانس بل 2024-25میں ایف بی آر کے نظام میں اصلاحات کے حوالہ سے ہونے والی قانون سازی کی رپورٹ جولائی کے دوسرے ہفتے میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔جبکہ جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایف بی آر بورڈا پنی پاورز کسی کو تفویض نہیں کرسکتا، کیااشد ضرورت اوروجہ تھی کہ اپنی پاور کسی اورکوتفویض کردی۔ کیا صورتحال پیدا ہوگئی تھی کہ ایف بی آر بورڈ کے سارے اختیارات ایک ممبر کو اورحکومتی ایجنسی کو دے دیئے گئے۔

پارلیمنٹ کہہ رہی ہے کہ کوئی پاور کسی کو تفویض نہیں ہوسکتی توبورڈ کیسے پاور کسی اورکو تفویض کرسکتا ہے،اگر قانون اجازت دیتا ہے توہی پاورکسی اورکو تفویض ہوسکتی ہے۔کیا بورڈ کے پاس پارلیمنٹ سے زیادہ سمجھ بوجھ ہے جو کہ پریشان کن ہے۔ ہم ہائی کورٹس کو ریگولیٹ نہیں کرسکتے۔ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر ایف بی آر ایکٹ پر ہی عملدرآمد کردیں تویہ ہی ایف بی آر میں سب سے بڑی اصلاح ہو گی۔ ایف بی آر زورزبردستی کے زریعہ ٹیکس اکٹھا کررہاہے۔ ہو سکتا ہے کہ اگر پالیسی بورڈ فنگشنل ہوتا تو ایف بی آر کو مسائل کاسامنا نہ ہوتا۔ کیا کبھی بورڈ کااجلاس اس حوالہ سے منعقد ہوا ہے کہ ٹیکس پیئرزرضاکارانہ طور پر ٹیکس ادا کریں، ایف بی آرساراکام زورزبردستی کررہا ہے، ٹیکس فرینڈلی نہیں، دنیا میں رضاکارانہ ادائیگی کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے ٹیکس پیئرز کے دائرہ اختیار کو کراچی سے کوئٹہ اور ریجنل ٹیکس آفس پشاور سے لارج ٹیکس پیئرز یونٹ اسلام آباد منتقلی کے حوالہ سے کمشنر ان لینڈ ریونیو ،چیئرمین ایف بی آر ہائوس، اسلام آباد کے توسط سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو ، چیف کمشنر ان لینڈ ریونیو ریجنل ٹیکس آفس پشاور اوردیگر کی جانب سے ایس کے بی -کے این کے جوائنٹ وینچر اوردیگر، سلطان محمود اینڈ کمپنی اوردیگر، سعداللہ خان اینڈ برادرز اوردیگر،ایم ایس کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹڈ (کیسکو)اوردیگر، ایم ایس سینڈک میٹلز لمیٹڈ اوردیگر، ظاہر خان اوردیگر کے خلاف دائر 92درخواستوں پر سماعت کی۔ حکومت پاکستان کی جانب سے اٹارنی جنرل بیرسٹر منصورعثمان اعوان نے پیش ہوکردلائل دیئے، جبکہ کمشنر ان لینڈ ریونیو کی جانب سے ڈاکٹر شاہنواربطور وکیل پیش ہوئے جبکہ ایف بی آرحکام اور مدعا علیحان کے وکلاء نے بھی پیش ہوکردلائل دیئے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ایک بورڈ ممبر کو بغیر پیرامیٹرز اوراختیارات تفویض کئے تمام معاملات چلانے کی اجازت دی جارہی ہے، یہ کہا کہ میری ساری پاورز آپ لے لیں یہ توعجیب بات نہیں ہے، ساری پاورز کو ایک ممبر کودے دیا جو کہ شازوناذر ہی ہوتا ہے، ایف بی آر ایکٹ2007کا سیکشن 8شاذوناذر ہی استعمال ہوتا ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ کیا صورتحال پیدا ہوگئی تھی کہ ایف بی آر بورڈ کے سارے اختیارات ایک ممبر کو اورحکومتی ایجنسی کو دے دیئے گئے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ رول میکنگ پاور کسی کو تفویض نہیں ہوسکتی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ٹیکس کی شرح متعین کرنے کی شرح تو رول میکنگ پاور سے زیادہ خطرناک ہے۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ایف بی آر بورڈ کی جانب سے کسی ممبر کو جوکام کرنے کا کہا جائے گااس پر عدالتی نظر ثانی ہوسکتی ہے۔ اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے بتایا کہ ایف بی آربورڈڈ میں چیئرمین اور13ممبرز ہوتے ہیں، کسٹم سروس کا شخص ممبر ان لینڈ ریونیو تعینات نہیں ہوسکتا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ بورڈ میں کون ہے، دیکھتے ہیں بورڈ ہے کیا،کون لوگ ہیں وہ سارے؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو وفاقی حکومت تعینات کرتی ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا ایف بی آر پالیسی بورڈ میں وفاقی کابینہ کے ارکان اورارکان پارلیمنٹ ہوتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ پالیسی بورڈ کی آج تک میٹنگ ہی نہیں ہوئی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ کیا کسی بھی شخص کو وفاقی حکومت بورڈ ممبر لگاسکتی ہے، بورڈ کے فنگشنز کیا ہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پالیسی بورڈ رہنمائی کرتاہے اور مالی پالیسی بناتاہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے کبھی نہیں سوچا کہ سیکشن دو کی پاورز کسی ممبر کو تفویض ہوسکتی ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کہہ رہی ہے کہ کوئی پاور کسی کو تفویض نہیں ہوسکتی توبورڈ کیسے پاور کسی اورکو رتفویض کرسکتا ہے، اگر قانون اجازت دیتا ہے توہی پاورکسی اورکو تفویض ہوسکتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ وہ کرنا چاہتے ہیں جو قانون میںنہیں ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کسٹمز ایکٹ میں دکھا دیں کہ بورڈاپنی پاورز کسی اورکوتفویض کرسکتا ہے۔

جسٹس سیدمنصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ بورڈ اپنی پاورز کسی کو تفویض نہیں کرسکتا، کیااشد ضرورت اوروجہ تھی کہ اپنی پاور کسی اورکوتفویض کردی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ اگر پالیسی بورڈ فنگشنل ہوتا تو ایف بی آر کو مسائل کاسامنا نہ ہوتا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھاکہ دوماہ میں ایک بورڈ میٹنگ ہو گی اوراس کے علاوہ بھی چیئرمین ایف بی آر بورڈ میٹنگ بلاسکتا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ بورڈ اس وقت پالیسی میکنگ پاورز استعمال نہیں کررہی اور صرف وصولی کا کام کررہی ہے، بورڈ اگر اپنی ذمہ داری سمجھے تو وہ دیکھے کہ قوانین پر عملدرآمد ہورہا ہے کہ نہیں، بورڈ نے ملک میں ٹیکس قوانین پر عملدآمد دیکھناہے اوردیکھناہے کہ ٹیکس پیئرز کی سہولت کاری ہورہی ہے کہ نہیں، کتنی مرتبہ چیئرمین ایف بی آر نے وفاقی حکومت کو پالیسی بورڈ کے قیام کے حوالہ سے لکھا۔ اس پر عدالت میں موجود ایف بی آرکے نمائندے کا کہنا تھا کہ، دو، تین مرتبہ لکھا۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ہم ایف بی آر میں اصلاحات کررہے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کیا بورڈ کے پاس پارلیمنٹ سے زیادہ سمجھ بوجھ ہے جو کہ پریشان کن ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھاکہ اگر ایف بی آر ایکٹ پر ہی عملدرآمد کردیں تویہ ہی ایف بی آر میں سب سے بڑی اصلاح ہو گی۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر پرائیویٹ سیکٹر سے چیئرمین آسکتا ہے توممبربھی لاسکتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ایف بی آر زورزبردستی کے زریعہ ٹیکس اکٹھا کررہاہے۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا ایف بی آر وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیس یہ غیر مئوثر نہیں ہو گیا، یہ درخواستیں واپس ہی لے لینی چاہیں، ہدایات کے ساتھ یہ درخواستیںنمٹا دینی چاہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پالیسی بورڈ بھی متحرک اور مئوثر ہوسکتاہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ کیا کبھی بورڈ کااجلاس اس حوالہ سے منعقد ہوا ہے کہ ٹیکس پیئرزرضاکارانہ طور پر ٹیکس ادا کریں، ایف بی آرساراکام زورزبردستی کررہا ہے، آپ ٹیکس فرینڈلی نہیں، دنیا میں رضاکارانہ ادائیگی کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ مین کیس میں مدعا علیحان کو ریلیف مل گیا ہوا ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پالیسی بورڈ میں وزیر خزانہ، وزیر تجارت، صنعت وپیداوار، نجکاری اور پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین شامل ہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میری انڈرٹیکنگ لکھ لیں کہ ایف بی آر کے حوالہ سے معاملات درست ہوں گے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 2007سے اب تک پالیسی بورڈ نہیں بنا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ فوری طورپر پالیسی بورڈ بنائیں، ہم بجٹ کے بعد تک سماعت ملتوی کردیتے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کی جانب سے کیسز کراچی سے کوئٹہ اور پشاور سے اسلام آباد منتقل کرنے کا نوٹیفکیشن 13مارچ2024اور12مارچ2024کو واپس لے لیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا کہ بورڈ کی جانب سے اپنے اختیارات تفویض کرنا مالی قانون کے خلاف ہے۔ تمام شراکت داروں کوبورڈمیں شامل کرنے پر غورکیا جاسکتا ہے۔ آئندہ فنانس ایکٹ 2024-25میں ان معاملات کودیکھاجائے گا۔ عدالت نے درخواستیں نمٹاتے ہوئے قراردیا کہ عدالتی تحفظات کے حوالہ سے اٹارنی جنرل جولائی کے دوسرے ہفتے میں رپورٹ جمع کروائیں گے۔

جبکہ بینچ نے2001میں نافذ ہونے والے سپرٹیکس کے نفاذ کے حوالہ سے کمشنر ان لینڈ ریونیو کی جانب سے سے دائر 167درخواستوں پر سماعت کی۔دوران سماعت بینچ کو بتایا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں معاملہ زیر سماعت ہے اس لئے کیس کی سماعت ملتوی کردیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم شائستگی کامظاہرہ کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردیتے ہیں اورتوقع رکھتے ہیں کہ آئندہ سماعت تک ہائی کورٹس معاملہ پر فیصلہ کردیں گی۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم ہائی کورٹس کو ریگولیٹ نہیں کرسکتے اگر 10جون تک ہائی کورٹس کی جانب سے فیصلہ نہ دیا گیا توپھر ہم آگے سماعت کریں گے۔