پاکستان، ایران، سعودی عرب اور افغانستان متحد ہوکر فلسطین اور کشمیر کی آزادی کیلئے جوہری کردار ادا کرسکتے ہیں،لیاقت بلوچ


اسلام آباد (صباح نیوز)نائب امیر جماعت اسلامی، مجلسِ قائمہ سیاسی قومی امور کے صدر لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستان، ایران، سعودی عرب اور افغانستان متحد ہوکر فلسطین اور کشمیر کی آزادی کیلئے جوہری کردار ادا کرسکتے ہیں،عالمی برادری کو فلسطینیوں کی نسل کشی پر مبنی اقدامات روکنے پر آمادہ کرنے کے لئے عالمِ اسلام کی قیادت کو بے حسی، بزدلی اور مفادات کی غلامی ترک کرکے دوٹوک اور جراتمندانہ کردار ادا کرنا ہوگا، انتخابی عمل میں سِول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نہ ہو، سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی آلہ کار نہ بنیں۔

لیاقت بلوچ نے اسلام آباد میں ایرانی صدر کے اعزاز میں ایرانی سفیر کے استقبالیہ میں شرکت کی۔ لاہور میں ایرانی قونصل جنرل سے ملاقات کی اور قم (ایران)سے آقائے سلمان نقوی کی سربراہی میں پاکستان آئے وفد سے ملاقات کی۔ اِس موقع پر لیاقت بلوچ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے غزہ فلسطین پر جرات مندانہ موقف اور اقدام کی تحسین کی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کا خیرمقدم کرتے ہوئے اِسے تاریخ ساز قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان، ایران، سعودی عرب اور افغانستان متحد ہوکر مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی آزادی کے لئے جوہری کردار ادا کرسکتے ہیں۔لیاقت بلوچ نے میڈیا انٹرویو میں کہا کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سکیورٹی کونسل کی قراردادوں اور اقدامات کا کوئی نتیجہ نہیں،اسرائیل کے ہر جبر، ظلم اور انسانی  قتلِ عام کی امریکہ، برطانیہ اور بعض دیگر ممالک کھل کر حمایت کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے اقوامِ متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کی قرارداد ویٹو کرکے انسانیت سوز جرائم میں اسرائیل کی سرپرستی پر ایک بار پھر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے اور اقوامِ متحدہ کو عملًا مفلوج اور اپنے مفادات کا غلام ادارہ ثابت کیا ہے۔ عالمی برادری کو فلسطینیوں کی نسل کشی پر مبنی اقدامات روکنے پر آمادہ کرنے کے لئے عالمِ اسلام کی قیادت کو بے حسی، بزدلی اور مفادات کی غلامی ترک کرکے دوٹوک اور جراتمندانہ کردار ادا کرنا ہوگا، وگرنہ اسلامی دنیا کی مفاداتی، بزدلی پر مبنی خاموشی اور مصلحت آمیزی عالمِ اسلام کے لئے مزید مشکلات اور بحرانوں کا سبب بن جائے گی۔

لیاقت بلوچ نے کہا کہ 8 فروری 2024 کو عام انتخابات کے بعد 21 اپریل کو ضمنی انتخابات کے انعقاد نے سیاسی عدم استحکام میں اضافہ کردیا ہے۔ جیتنے والوں کے لئے جیت کی خوشی نہیں اور ہارنے والوں کے پاس بھی باتوں اور احتجاج کے سِوا کچھ نہیں۔انہوںنے کہا کہ نظامِ انتخاب ناکارہ اور انتخابی عمل بے اعتماد مشق بن گیا، سیاسی نظام اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کیساتھ مصنوعی جعلی مینڈیٹ، مصنوعی سطحی استحکام کے سہارے کھڑا ہے، اِس لئے بحران ختم ہونے کے بجائے بڑھتے چلے جارہے ہیں،اقتصادی بحرانوں سے نجات  کے لئے اندرونی سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ  ملک میں شفاف، غیرجانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کے لئے اِس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ انتخابی عمل میں سِول او رملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نہ ہو، سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی آلہ کار نہ بنیں اور انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کا جمہوری جذبہ اور حوصلہ پروان چڑھے۔