کراچی(صباح نیوز)پاکستان اسٹیل ملز اسٹیک ہولڈرز گروپ نے موجودہ سی ای او بریگیڈیئر (ریٹائرڈ)شجاع حسن خوارزمی کومدت ملازمت میں ایک سالہ توسیع دینے کے وفاقی کابینہ کے حالیہ 2 نومبر کے فیصلے پرشدیدتحفظات کا اظہار کیا ہے اور اسے میرٹ کے برخلاف تحریک انصاف حکومت کااپنے منشورسے ہٹ کر سیاسی فیصلہ قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ شجاع حسن کو ابتدائی طور پر 20 اگست 2020 کومنسٹری آف انڈسٹریز اینڈ پروڈکشن کی جانب سے ایک سالہ کنٹریکٹ پرسی ای او تعینات کیا گیا تھا اور اسوقت انکی تقرری کی وفاقی کابینہ سے کوئی منظوری بھی حاصل نہیں کی گئی تھی بلکہ مبینہ طور پرانھیں ایک مرضی کے مطابق بنانے ہوئے(ٹیلرمیڈ)اشتہار کے ذریعے منتخب کروایا گیا جس کے بار ے میں ملازمین تنظیموں کا الزام ہے کہ اسے خاص طور پر چیئرمین بورڈ عامر ممتاز نے انچارج اے اینڈ پی ریاض حسین منگی اور کمپنی سیکرٹری محمد شفیق انجم کے ساتھ ملکرخاص طورپر ڈیزائن کروایااورعمر، قابلیت اور تجربے کے مطلوبہ معیار کوسابقہ اشتہارات کے مقابلے میں قواعدو ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اور شجاع حسن کے پروفائل کوسامنے رکھتے ہوئے ردوبدل کرکے مشتہر کیاجبکہ شارٹ لسٹڈ امیدواروں میں انجینئر فاروق عثمان صدیقی اور انجینئر طارق اعجاز چوہدری جو کہ مطلوبہ تعلیمی قابلیت اور ملکی وبین الاقوامی اداروں کا متعلقہ تجربہ رکھتے تھے انہیں نظر انداز کرتے ہوئے اور میرٹ کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے شجاع حسن خوارزمی کومنتخب کیا گیا حالانکہ وہ صرف دفاعی ادارے میں کام کاتجربہ اور اسی نوعیت کی تعلیم کے حامل تھے اورکسی کارپوریٹ ادارے میں سینئر پوزیشن پر کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے تھے اور پاکستان انجینئرنگ کونسل ایکٹ کے مطابق انجینئرنگ کی تعلیمی قابلیت نہ ہونے کے باعث وہ ملک کے سب سے بڑے انجینئرنگ سے متعلقہ صنعتی ادارے کے سی ای او بننے کے بھی اہل نہیں تھے۔صرف یہی نہیں بلکہ شجاع حسن خوارزمی کی اس خلاف ضابطہ تقرری پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی رپورٹ برائے 2020-2021 میں بھی اعتراض اٹھایا کہ چیف ایگزیکٹو کی تعیناتی متعلقہ تعلیمی قابلیت اور تجربے کے بغیر کی گئی اور بورڈ نے متعلقہ امیدواروں کی صحیح طریقہ کار کے مطابق جانچ پڑتال نہیں کی۔
مزیدبرآں اس غیرقانونی تقرری کے خلاف پیپلز ورکرز یونین کا دائر کردہ کیس سی پی 4699 آف 2020سندھ ہائی کورٹ میں گزشتہ سال سے زیر سماعت ہے۔اسٹیک ہولڈرز گروپ کے مطابق جہاں تک موجودہ سی ای او کی کارکردگی کا تعلق ہے صرف جولائی تادسمبر2020 چھ ماہ کے دوران اسٹیل ملز کو8.25 ارب روپے کے نقصان اور واجبات ادائیگیوں کی مد میں 58.92 ارب روپے کے اضافے کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ جنوری تا جون تک کے آڈٹ شدہ اکائونٹس تاحال دستیاب نہیں ہیں۔موجودہ سی ای او کے سابقہ ایک سالہ دور میں اسٹیل ملز کے پیداواری یونٹس سے میں سے کسی ایک کو بھی بحال نہیں کیا جا سکا اور گیارہ لاکھ ٹن سالانہ کی پیداواری صلاحیت کے حامل پلانٹ سے ایک ٹن اسٹیل بھی پیدا نہیں کیا گیا اور نہ ہی پلانٹ اور مشنری کی ضروری دیکھ بھال پر کوئی توجہ دی گئی۔
اس مجرمانہ غفلت کی وجہ سے اب پلانٹ اور اسکا انفراسٹرکچر زنگ آلود ہو کرگلنے لگا ہے اور اسے دانستہ تباہ کیا جا رہا ہے تاکہ یہ پروڈکشن دینے کے قابل نہ رہے۔اسٹیک ہولڈرز گروپ کے مطابق موجودہ سی ای او کے دور میں کروڑوں روپے مالیت کی مشینری، سکریپ اور دیگر قیمتی ساز وسامان چوری ہوئے مگر کسی ذمہ دار کا احتساب نہ ہوا اور حال ہی میں جنرل منیجر سکیورٹی کیپٹن (ریٹائرڈ)بابر برنارڈ کا استعفیٰ مورخہ 17 اکتوبر سے منظور کرتے ہوئے انہیں بغیر کسی احتساب کے جانے کا محفوظ راستہ دیا گیا۔موجودہ سی ای او اب تک اسٹیل ملز سے تین مراحل میں مجموعی طور پر تقریبا 5492 تجربہ کار ملازمین بشمول انجینئرز و افسران بغیر کسی قانونی جواز کے برطرف کر چکے ہیں جسے وہ بڑے فخر سے ادارے کے اخراجات کم کرنے کے لئے اپنا کارنامہ قرار دیتے ہیں جبکہ وہ خود اس بند ادارے سے ماہانہ ساڑھے چار لاکھ روپے سے زائد تنخواہ اور دیگر مراعات وصول کرتے ہیں جن میں رہائش کے لئے سی ای او ہاؤس، میڈیکل اخراجات اور گاڑی بمعہ ڈرائیور وفیول وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم پچھلے چند ماہ سے وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ گیسٹ ہاؤس اسٹیل ٹائون میں مقیم ہیں اور لاکھوں روپے کے ماہانہ اخراجات ان افراد کے قیام و طعام اور دیگر لوازمات پر بغیر کسی چیک اینڈ بیلنس اور پیشگی منظوری کے خرچ کیے جا رہے ہیں اوراطلاعات کے مطابق اب اکائونٹس ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین پر دبائو ڈالا جا رہا کہ ان تمام خلاف ضابطہ اخراجات کو ریگولرائز کیاجائے۔
اسٹیک ہولڈرز گروپ کے مطابق موجودہ سی ای او، اسٹیل ملز کے اثاثوں اور مفادات کا تحفظ کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں اور انکی توجہ صرف پرائیویٹائزیشن کمیشن اور چیئرمین بورڈ عامر ممتاز کے ساتھ مل کر سبسڈری کمپنی بنانا اور اسٹیل ملز پلانٹ، مشنری اور اثاثہ جات کو کم لگائی گئی مالیت پرخریدار پارٹی کے حوالے کرنا اور باقی ماندہ ملازمین وافسران کو بھی ملازمتوں سے غیر قانونی طور پر برطرف کرناہے۔ لہذا انکی مدت ملازمت میں توسیع بظاہر میرٹ یا قواعدو ضوابط کے مطابق نہیں بلکہ حکومت کی ایک سیاسی ضرورت نظر آتی ہے۔
اسٹیک ہولڈرز گروپ کے مطابق موجودہ سی ای او جواتنے بھاری نقصانات اور بے قاعدگیوں کے ذمہ دار ہیں، انکا احتساب کرنے کے بجائے انہیں مزید ایک سال کی توسیع دینا قابل مذمت ہے۔ لہذا احتساب کے قومی ادارے، آڈیٹر جنرل آف پاکستان آفس، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان اور انصاف کی فراہمی کے دیگر ادارے اسکا نوٹس لے کر کارروائی کریں۔