ایپلٹ کورٹ نے فیصلہ دیا، ہائی کورٹ نے فیصلہ برقراررکھا ہم اسے بدل تونہیں سکتے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ اگر رشتہ داروں میں مسئلہ ہوجائے تووہ حل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ہم ریکارڈ سے کیس چلائیں گے اگر وکیل ہوا میں کیس چلانا چاہتے ہیں، چلائیں، 1996سے کیس چل رہا ہے ابھی میں دستاویزات دائر کردیتا ہوں، کریں نہ کریں وقت گزرچکا ہے۔ ہائی کورٹ کے فیصلے میں کوئی غلطی ہے،کرایہ ملتاتھا اس کی رسیدیں دکھادیں، 1870سے گھرمیں بیٹھا ہے، اگر کرایہ دارہے تواس کی رسیدیں دکھادیں۔ ایپلٹ کورٹ نے فیصلہ دیااور ہائی کورٹ نے فیصلہ برقراررکھا ہم اسے بدل تونہیں سکتے۔91سال دعویٰ دائر کررہے ہیں، بندے مرگئے کوئی گواہی نہیں لارہے کس نے کس کو پیسے دیئے، کیا مرنے سے پہلے درخواست گزارکان میں بتاگیا تھا کہ میں نے پیسے دیئے تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جمعہ کے روز مختلف کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے ایاز علی خان اوردیگر کی جانب سے مسمات تاج البنات اوردیگر کے خلاف زمین کی ملکیت کے حوالہ سے دائر دعویٰ پر سماعت کی۔

درخواست گزار کی جانب سے محمد آصف اور مدعا علیہ کی جانب سے نیاز ولی خان بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پراپرٹی کتنی ہے، کہاں ہے،کتنی ہے، کتنے گزہے، نہیں پتا، 20سالوں سے کیس لڑ رہے ہیں، یہ نہیں پتا پراپرٹی کتنی ہے، گھر ہے، دوکان ہے کیا ہے بتادیں۔ وکیل کی جانب سے کیس کے فیکٹس نہ بتانے پر چیف جسٹس نے درخواست گزار کو ہدایت کی کہ وہ تیاری کر لیں کیس بعد میں دوبارہ سنیں گے۔ کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی توچیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آرڈر چاہتے ہیں یا درخواست واپس لے لیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ معاملہ افہام وتفہیم سے حل ہوجائے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر رشتہ داروں میں مسئلہ ہوجائے تووہ حل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ چیف جسٹس کا فریقین کے وکلاء سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ لوگ لڑتے رہیں گے کسی کوفائدہ نہیں ہوگا، ہم فیصلہ نہیں لکھنا چاہتے کہ درخواست گزار کے حقوق متاثر نہ ہوجائیں، لے دے کر معاملہ حل کریں،ہم توقانون پر چلیں گے، ایک زمانہ میں کوئی چیز کرایہ پر لینے کے لئے پگڑی کی رقم دی جاتی تھی اب تو وہ سسٹم ختم ہو گیا ہے۔درخواست کے وکیل کا کہنا تھا کہ کمپرومائز کریں گے اس لئے درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔

عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی۔ جبکہ بینچ نے معشوق احمد اوردیگر کی جانب سے فرمان علی اوردیگر کے خلاف زمین کے دعویٰ کی سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے محمد آصف بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ کے سامنے دستاویزات کی بنیاد پر کیس چلائیں گے، ہم ریکارڈ سے کیس چلائیں گے اگر وکیل ہوا میں کیس چلانا چاہتے ہیں، چلائیں، 1996سے کیس چل رہا ہے ابھی میں دستاویزات دائر کردیتا ہوں، کریں نہ کریں وقت گزرچکا ہے۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ التوا مانگے کی ہراستدعا پر 10ہزارروپے جرمانہ کروں گا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے میں کوئی غلطی ہے،کرایا ملتاتھا اس کی رسیدیں دکھادیں، 1870سے گھرمیں بیٹھا ہے، اگر کرایہ دارہے تواس کی رسیدیں دکھادیں۔ وکیل کی جانب سے دستاویزات جمع کروانے کی استدعا پر کہنا تھا کہ 10ہزار روپے جرمانہ، دستاویزات کو چھوڑیں اپنا کیس چلائیں، کرائے کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، ایپلٹ کورٹ نے فیصلہ دیااور ہائی کورٹ نے فیصلہ برقراررکھا ہم اسے بدل تونہیں سکتے۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 5دسمبر2005کو عدالت نے جرمانہ لگایا تھاکیا وہ جمع کروایا کہ نہیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ رمضان کے مہینہ میں اپنے پسند کے خیراتی ادارے کو پیسے عطیہ کریں۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔بینچ نے میرسروراوردیگر کی جانب سے اول دراز خان اوردیگر کے خلاف زمین کی ملکیت کے حوالہ سے دائر دعویٰ پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فیملی کا مسئلہ ہے عدالت کیا کرے، 91سال دعویٰ دائر کررہے ہیں، بنے مرگئے کوئی گواہی نہیں لارہے کس نے کس کو پیسے دیئے، کیا مرنے سے پہلے درخواست گزارکان میں بتاگیا تھا کہ میں نے پیسے دیئے تھے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا تنازعہ پیدا نہیں ہوتا بلکہ تنازعہ پیدا کروایا جاتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 1905سے مدعا علیحان کے نام پر زمین ہے۔عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔