خواجہ آصف نے آج کل ایک نئی بحث شروع کی ہوئی ہے۔ وہ مسلم لیگ ن کے ماضی میں کیے گئے غلط فیصلوں کااعتراف کر رہے ہیں جو بادی النظر میں اچھی بات ہے بہر حال وہ نئی بحث چھیڑ رہے ہیں۔ لیکن سب سے اہم سوال ٹائمنگ کا ہے وہ کیوں نئی بحث چھیڑ رہے ہیں اس کا جواب تو خواجہ صاحب ہی دے سکتے ہیں اب ووٹ دینے کے فیصلے کو وہ غلط سمجھتے ہیں۔
ان کا موقف ہے کہ ن لیگ کو اس وقت توسیع کی اس قانون سازی کے حق میں ووٹ نہیں دینا چاہیے تھا۔ وہ یہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ اس فیصلے میں وہ شریک تھیاس سلسلے میں تمام میٹنگ میں شریک رہے۔ بطور پارلیمانی لیڈر مسلم لیگ (ن) کے تمام ارکان کو ووٹ دینے کا پیغام بھی انھوں نے ہی پہنچایا۔ اچھی بات یہ ہے کہ وہ اپنی ذمے داری قبول کرتے ہیں اورتاریخ کی درستگی کے لیے یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ یہ ایک غلط فیصلہ تھا جس کے اچھے نتائج نہیں برآمد ہوئے۔
اسی طرح ایک اور موقع پر خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ ٹی ٹی پی کو دوبارہ پاکستان میں آباد کرنے کے حوالے سے جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے اس وقت پارلیمان کو بریفنگ دی تھی۔ اس لیے پارلیمان انھیں بلا کر اس پالیسی کے حوالے سے باز پرس کرنی چاہیے۔ کیونکہ یہ پالیسی ناکام ثابت ہوئی ہے بلکہ پاکستان میں دہشت گردی بڑھ گئی ہے۔ البتہ وفاقی وزیر قانون نے ان کے اس بیان کے بعد واضح کیا کہ حکومت کسی کو پارلیمان میں بلانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ یہ خواجہ صاحب کا ذاتی موقف ہے۔ تاہم خواجہ صاحب تا دم تحریر اپنی بات پر قائم ہیں۔
انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ 2018کے انتخابات میں اپنے نتائج کے لیے جنرل باجوہ کو فون کرنے کی بات جنرل باجوہ نے نہیں میں نے خود بتائی تھی کہ میں نے فون کیا ہے۔ جب سوال کیا گیا ہے کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انھوں نے نہایت سادگی سے جواب دیا کہ مجھے الیکشن کمیشن کی مجبوریوں اور ان کی بے اختیاری کا بخوبی علم تھا۔ اس لیے جہاں فون کرنا چاہیے تھا میں نے وہاں ہی فون کیا۔ میرے نتائج کے ساتھ جو فراڈ کیا جا رہا تھا میں نے وہ ثبوت بھی بھیجے تھے کہ میں ہار نہیں رہا مجھے ہروایا جا رہا ہے۔ جس کے بعد مجھے ہروانے کا سلسلہ رک گیا۔
خواجہ آصف سے یہ سوال بھی ہوا ہے کہ آپ کی گفتگو کے جواب میں جنرل باجوہ کوئی پریس کانفرنس کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جس کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا ہے کہ وہ بے شک پریس کانفرنس کریں میرے پاس بھی کہنے کو اور بہت کچھ ہے جو میں نے ابھی نہیں کہا۔
یہ سوال بھی خواجہ آصف سے ہوا ہے کہ آپ اب یہ باتیں کیوں کر رہے ہیں۔ تب کیوں نہیں کیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ بہت اہم سوال ہے۔ لیکن خواجہ آصف نے بہت سادہ جواب دیا ہے کہ میں دو دفعہ گرفتار ہوا تھا۔ اس سے بہت نرم باتوں پر میں گرفتار ہو گیا تھا۔ اگر میں یہ باتیں کرتا تو اندر ہی رہتاان کا موقف ہے کہ مجھے بطور سیاستدان اتنا تو حق ہونا چاہیے کہ میں نے کب کونسی بات کرنی ہے۔ سیاست ٹائمنگ کا بھی کھیل ہے۔
خواجہ آصف اس سے پہلے یہ بات بھی کر چکے ہیں کہ 2024کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات سے پہلے 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آپ 2018کے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات نہ کریں اور سیدھے 2024کے انتخابات میں دھاندلی پر تحقیقات پر آجائیں۔
انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پہلے 2018کے انتخابات میں دھاندلی کے کرداروں کو سزا ملے گی تو 2024کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے یا نہیں، اس کی تحقیقات ممکن ہیں۔ میں ان باتوں کو سامنے رکھ کر معاملات سمجھنے کی کوشش کروں تو کیا اس کا یہ مطلب تو نہیں جیسے 2018 کے انتخابات میں دھاندلی پر کوئی تحقیقات نہیں ہوئیں، ایسے ہی 2024کے انتخابات کی بھی کوئی تحقیقات ممکن نہیں۔ اس لیے شور مت مچائیں۔ کیونکہ سیاستدان کی گفتگو کے کافی مطلب ہوتے ہیں۔ اصل مطلب تک پہنچنے کے لیے کافی پہلوں کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔
خواجہ آصف ملک کے وزیر دفاع ہیں۔ وہ پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی وزیر دفاع تھے۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ انھیں اسٹیبلشمنٹ کی طاقت اور ان کی سوچ کا علم نہیں تو حماقت ہوگی۔ میں خواجہ آصف کو ایسا سیاستدان بھی نہیں سمجھتا جو کوئی سیاسی خود کشی پر یقین رکھتے ہیں۔وہ سمجھدار اور ذہین سیاستدان ہیں۔ سیاست میں راستے بند کرنے پر نہیں راستے بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ ایسی بات نہیں کر سکتے جس سے کوئی بنی بنائی گیم خراب ہو جائے۔ وہ اتنا ہی کھیلتے ہیں جتنا نظام ان کو کھیلنے کی اجازت دیتا ہے۔
کیا خواجہ آصف کی گفتگو کے نتیجے میں ن لیگ اور اسٹبلشمنٹ کے تعلقات خراب ہو جائیں گے؟ میں نہیں سمجھتا۔ وہ ایسا کر بھی نہیں سکتے وہ اس کھیل کے ایک بڑے اسٹیک ہولڈر وہ اپنے سیاسی مخالفین کے نشانے پر ہیں۔ اس لیے وہ جو بھی گفتگو کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ن لیگ اور اسٹبلشمنٹ کے تعلقات خراب ہونا ممکن نہیں۔ وہ اتنی ہی بات کر رہے ہیں جتنی کی جا سکتی ہے،جو محفوظ ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس