ہرامریکی صدر کی یہ روائت رہی ہے کہ وہ ہر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں امریکی مسلمان کمیونٹی کے چنیدہ افراد اور مسلمان تنظیموں کے لیڈروں کو وائیٹ ہاوس میں مدعو کرتے ہیں۔ عید الفطر کے موقع پر بھی امریکی صدر اپنی سرکاری رہائش گاہ، قصر ابیض، میں مسلمان کمیونٹی کو مدعو کرکے ان کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔
اِس بار مگر امریکی مسلمانوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ قصر ابیض میں امریکی صدر کی دونوں دعوتوں میں بطورِ احتجاج شریک نہیں ہوں گے ۔19مارچ 2024 کو وائس آف امریکا نے بھی اِس خبر کی تصدیق کر دی ہے ۔ امریکی مسلمانوں کے احتجاج کی بنیادی وجہ یہ کہ امریکی صدر، جو بائیڈن، غزہ میں ظالم اسرائیل کے ہاتھوں حماس اور فلسطینیوں کے قتلِ عام کو رکوانے اور سیز فائر کروانے میں دانستہ غفلت برت رہے ہیں۔
ریاستہائے متحدہ امریکا میں اِس وقت، اندازا، پانچ ملین مسلمان بس رہے ہیں ۔ زیادہ ترمسلمان معاشی ہجرت کرکے امریکا جا بسے ۔ کسی مسلمان نے سیاسی پناہ لی اور پھر رفتہ رفتہ امریکی شہریت اختیار کر لی۔ کئی مسلمان اپنے تجارتی و پیشہ وارانہ مستقبل کو بہتر بنانے اور سنوارنے کے لیے امریکا جا بسے ۔
اِن مہاجر مسلمانوں کو امریکا میں اپنے پاوں جمانے اور امریکی شہری بننے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے ہیں۔ آج یہ امریکی مسلمان معاشی اور سیاسی اعتبار سے ایک قابلِ ذکر کمیونٹی بن چکے ہیں۔ امریکا میں بروئے کار پاکستانی مسلمان ڈاکٹروں کی تنظیم APPNAایک سیاسی پریشر گروپ بھی بن چکا ہے۔ سچ یہ ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں موجود امریکی مسلمان کمیونٹی کو آج امریکا کی دونوں بڑے سیاسی جماعتیں ( ڈیموکریٹ اور ریپبلکن) نظر انداز نہیں کر سکتیں ۔ دونوں جماعتیں امریکی مسلمان کمیونٹی کے ووٹ بٹورنا چاہتی ہیں۔
امریکی مسلمانوں کو مقامی گورے امریکیوں کے برابر انسانی ، سیاسی اور معاشی حقوق ملنے کے باوجود آج بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے ۔ مبینہ اسلامو فوبیا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ نائن الیون سانحہ کے بعد امریکی مسلمان نئے مسائل اور آزمائشوں کا شکار بنے ۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ شائد اب ، نائن الیون کی تباہ کن ٹریجڈی کے بعد، امریکی سرزمین پر مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ جائیں گے۔
امریکی حکومت اور انتظامیہ نے مگر کمال محنت اور کمٹمنٹ کے ساتھ امریکی مسلمان شہریوں کا خوف دور کر دیا۔ امریکی مسلمان پھر سے، دلجمعی کے ساتھ، امریکی معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے لگے ہیں۔ امریکا میں بسنے والے تقریبا تمام مسلمان دل سے مانتے اور تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اپنے جن جن مسلمان ممالک سے ہجرت کرکے امریکا میں آ بسے ہیں، انہیں اپنے آبائی مسلمان ممالک کی نسبت امریکا میں زیادہ معاشی ، سیاسی، سماجی اور مذہبی آزادیاں میسر ہیں ۔آج امریکا میں 4ہزار سے زائد مساجد بروئے کار ہیں۔ یہ اِس امر کی شاہد ہیں کہ امریکی مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادیاں دستیاب ہیں ۔
عددی اعتبار سے کم ہونے کے باوجودامریکی مسلمان کمیونٹی امریکی سیاسیات اور انتخابات میں اپنا نمایاں اور بھرپور کردار ادا کررہی ہے ۔ امریکی صدارتی انتخابات میں امریکی مسلمانوں کا کردار منہا نہیں کیا جاسکتا۔ پچھلی بار(2020) امریکی صدارتی انتخابات میں امریکی مسلمانوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی بجائے جوبائیڈن کو ووٹ دیے تھے ۔
صدارتی انتخابات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ(اور ان کے یہودی داماد جیرڈ کشنر) نے مسلمانوں اور فلسطینیوں کے خلاف کچھ ایسے بیانات داغے تھے کہ امریکی مسلمانوں نے اجتماعی طور پر متفقہ فیصلہ کیا کہ ہم ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ نہیں دیں گے ۔یوںجو بائیڈن اکثریتی ووٹوں سے جیت گئے تھے۔ شکست کے بعد ٹرمپ نے امریکی مسلمان کمیونٹی سے اِس بات کا گلہ بھی کیا۔
عجب اتفاق ہے کہ آج امریکی مسلمان کمیونٹی جو بائیڈن سے بھی بددل ہو چکی ہے۔ 7اکتوبر2023 کو اسرائیل اور حماس (فلسطین) کے درمیان چھڑنے والی ہلاکت خیز جنگ ( جس میں اسرائیل اب تک 32ہزار کے قریب فلسطینی مسلمان شہید کر چکا ہے ) میں امریکی صدر ، جو بائیڈن، نے اسرائیل کا قدم قدم پر ساتھ دیا ہے ۔امریکی صدر ، جو بائیڈن، مسلسل یہود و اسرائیل نواز بیانات بھی دے رہے ہیں اور جارح اسرائیل کو مالی و عسکری امداد بھی فراہم کررہے ہیں۔
اِن اقدامات سے یقینا عالمِ اسلام کے ساتھ ساتھ امریکی مسلمانوں کے دل بھی دکھے۔یہاں تک کہ جب26جنوری 2024 کو عالمی عدالتِ انصاف (ICJ) میں دو کے مقابلے میں 15ججوں نے اسرائیل کے خلاف اکثریتی فیصلے میں کہا کہ اسرائیل فوری طور پر غزہ میں فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی بند کرے اور غزہ میں عالمی انسانی امداد کے ٹرک اور ادویات داخل ہونے کی اجازت دے تو اسرائیل کے ساتھ امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم نے اِس فیصلے کی سخت مخالفت بھی کی اور ناراضی کا اظہار بھی کیا ۔
جو بائیڈن کے اِس رویئے پر امریکی مسلمان سخت برہم ہیں۔ وہ غزہ کے فلسطینی مسلمان بھائیوں کے خلاف امریکی صدر کے بیانات اور اسرائیل نوازی پر ناراض ہیں۔ اِس پس منظر میں امریکی مسلمان کمیونٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ رواں برس نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن کو ووٹ نہیں دیں گے۔
امریکی مسلمانوں کے اِس فیصلے کی بازگشت بجلی بن کر جو بائیڈن اور ان کی پارٹی پر گری ہے۔ جو بائیڈن اور ان کی پارٹی نے، فلسطینی مسلمانوں کے خلاف اسرائیلی مظالم کی حمائت کے باوصف، امریکی مسلمانوں کے ووٹوں کوTaken for Grantedسمجھ رکھا تھا ۔ اب امریکی مسلمانوں نے یہ اعلان کیا ہے تو جو بائیڈن کی صفوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔
اِس کی پہلی مثال امریکی ریاست مشی گن میں سامنے آئی ہے۔ مشی گن میں عرب اور مسلمان کمیونٹی بھاری اکثریت میں رہتی ہے ؛ چنانچہ جو بائیڈن کی میڈیا اور انتخابی کمپین کے لیڈروں ( مثلاJulie Chavez Rodriguez) نے مشی گن میں مسلمان کمیونٹی کے لیڈروں ( مثلا اسعد طرفی اور زیدان) سے بھاگم بھاگ رابطہ کیا ہے کہ پلیز، اپنے فیصلے پر نظر ثانی کیجئے ، ہم فوری طور پر آپ کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور آپ کے شکوے شکایات دور کرنے کی کوئی سبیل نکالتے ہیں۔ امریکی صدر کے خلاف اِس انتخابی مہم میں اب نیویارک اور نیو جرسی کے مسلمان بھی شریک ہو چکے ہیں ۔ سب مسلمانوں نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم نہ تو جو بائیڈن کے کمپین لیڈروں سے ملیں گے اور نہ ہی جو بائیڈن کو ووٹ دیں گے ۔
اب اِنہی مسلمانوں نے اجتماعی طور پر جو بائیڈن کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے تو جوبائیڈن کی پریشانی دیدنی ہے وہ مگر امریکی یہودیوں کی محبت میں مبتلا ہو کر اسرائیلی ظالم صہیونی حکومت کی حمائت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اقبال نے سچ ہی تو کہا تھا: فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے۔
امریکی مسلمان جائیں تو جائیں کہاں؟ جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ ، دونوں ہی یہودیوں کی گرفت میں ہیں ۔ ایک معروف امریکی سیاستدان نینسی پلوسی نے تہمت لگا دی ہے کہ امریکا میں جو لوگ بھی فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کررہے ہیں، دراصل روسی صدر پوٹن کے ہمنوا ہیں۔ یہ مظاہرین امریکا میں تقسیم چاہتے ہیں۔
امریکی مسلمانوں کی ایک نمایندہ تنظیم (CAIR)کے سربراہ نے اینے ردِ عمل میں کہا ہے: نینسی پلوسی نے امریکی مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی مذموم کوشش کی ہے ۔ ایسے حالات میں امریکی مسلمان بھلا کیونکر جو بائیڈن کا ساتھ دیں گے ؟
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس