چاہے ڈیفنس یا سپیس کے انجینئریا سائنسدان ہوں، تو اکثر جنوبی بھارت سے ہی تعلق رکھتے ہیں، اس لئے سائنس سے تعلق رکھنے والے ادار ے یا لیبارٹریز بھی اسی خطے میں ہیں۔ جنوب میں پہلے سے ہی کئی اقتصادی کلسٹرز ہیں جن کی فی کس آمدنی $3000 سالانہ سے زیادہ ہے، شمالی بھارت میں اس طرح کی فی کس آمدن صرف دارالحکومت دہلی کے آس پاس اور گجرات کے چند علاقوں تک محدود ہے۔ تلنگانہ نے توگزشتہ چھ سالوں میں اپنی فی کس آمدنی دوگنی یعنی $4000 کر دی ہے۔ جنوبی بھارت کے سیاست دانوں کو بھی اپنی ریاستوں میں بہترین کارکردگی دکھانے کے مواقع ملے ہیں ، کیونکہ مغربی ممالک کی طرز پر ہر پانچ سال کے بعد اقتدار میںتبدیلی آتی ہے۔ اس طرح پاور کا سائیکل گردش کرتا رہتا ہے اور حکمران کا احتساب بھی ہوتا رہتا ہے۔ اس لئے جن جذباتی اور فرقہ وارانہ ضوعات پر شمالی بھارت میں ووٹ ملتے ہیں، وہ جنوب میں بک نہیں پاتے ہیں۔اس کے علاوہ 1977 کے بعدسے، جنوب میں علاقائی پارٹیاں مضبوط ہیں۔ وہ کرناٹک کے علاوہ دیگر صوبو ں میں بی جے پی کو گھسنے نہیں دے رہے ہیں۔ مزید برآں، بی جے پی نے کئی ایسے قوانین بنا کر مرکز کو مضبوط کرکے ریاستوں کی خود مختاری کو کم کرکے ان کی ناراضگی مول لی ہے۔ کردیا ہے۔ ان علاقائی پارٹیوں کا خیال ہے کہ ان کو ختم یا تباہ کرنے کے سامان مہیا کروائے جا رہے ہیں۔ ریاستوں کے ذریعے لئے گئے محصولات کو ختم کرکے ایک مرکزی ٹیکس جی ایس ٹی نافذ کرکے صوبوں کو مالیات کیلئے اب مرکز کے دست نگر رکھ کر ان کی معاشی خود مختاری سلب کر لی گئی ہے، جس کا براہ راست اثر جنوبی صوبو ں پر پڑا ہے، کیونکہ ٹیکس کے زمرے میں وہ اچھی خاصی رقوم اکھٹی کرتے تھے اور اس طرح ان کا انحصار مرکز پر کم ہو تا تھا۔ پورے بھارت کی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی ہونے کے باوجود 2026میں حد بندی کے بعد جنوبی بھارت کی لوک سبھا میں سیٹیں کم ہونے سے اس کا سیاسی وزن کم ہوجائیگا۔ جنوب میں آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ ملک کی اقتصادیات کی خاطر خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام پر عمل کرتے ہوئے ، آبادی پر کامیابی کے ساتھ روک لگاکر جنوبی صوبوں کو انعام و اکرام ملنا چاہئے تھاجبکہ شمالی ریاستوں میں آبادی کے بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور ملک کی اقتصادیات میں بھی ان کا حصہ برائے نام ہے۔ اگر لوک سبھا میں صرف آبادی کو معیار بنا کر شمالی بھارت کی سیٹیں بڑھا کر جنوب کو سیاسی طور پر بے وزن کردیا گیا، تو اس کے نتائج خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ خیر پچھلے انتخابات میں کانگریس نے رافیل جنگی طیاروں میں کورپشن کا ایشو بڑے پیمانے پر اٹھایا، مگر پلوامہ اور بالا کوٹ کی گھن گرج میں وہ دب گیا۔ اس بار کانگریس نے غریبوں کو کم از کم آمدنی کی گارنٹی کا وعدہ اپنے منشور میں شامل کیا ہے۔ اس کے علاوہ انتخابی بانڈز کے بھانڈے کو سپریم کورٹ نے حال ہی میں جس طرح بیچ چوراہے پر پھوڑا ہے، وہ اس کو لیکر بھی انتخابی میدان میں اتر رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کے حوالے سے مودی حکومت نے ایک ایسی پالیسی بنائی تھی، کہ جو کمپنیاں فنڈنگ کرنا چاہتی ہیں، و ہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا میں پیسے جمع کروا کر ایک بانڈ لیتی تھیں،جیسے پوسٹ آفس سے پوسٹل آرڈر ملتا تھا۔ پھر اس کو متعلقہ پارٹی کے دفتر میں دینا ہوتا تھا، جو پندرہ دن کے اندر اس کو کیش کروا سکتی تھی۔ اس پورے عمل میں ڈونر کی شناخت خفیہ رہتی تھی، اس کا نام صرف اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو ہی پتہ ہوتا تھا۔ ظاہر سی بات ہے حکمران پارٹی کو اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ کی جانکاری ہوتی ہی تھی۔حیرت تو یہ ہے کئی کمپنیوں نے اپنے منافع سے بھی زیادہ کے بانڈ خرید کر حکمران بی جے پی کو مبینہ طور پر دیئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کمپنیوں پر ای ڈی، یا دیگر ادراوں کے ذریعے ریڈ کی جاتی تھی اور اس کے ایک ہفتہ کے اندر ہی یہ کمپنیاں بانڈز خریدکر بی جے پی کو عطیہ کرتی تھیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن کس طرح اس ایشو کو انتخابات میں بھنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ پارلیمانی انتخابات کی فنڈنگ ہی کورپشن کی جڑ ہے۔ اس پر ابھی تک کوئی موثر کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی ہے، نہ ہی اس کا متبادل سوچا گیا ہے۔ مودی کے ہندو توا کی دھار کو کند کرنے کیلئے اپوزیشن نے ذات پات پر مبنی مردم شماری کروانے کے مطالبہ کو زور و شور سے اٹھایا تھا اور بہار میں وزیر اعلی نتیش کمار کی سربراہی میں اس کو روبہ عمل بھی لایا تھا۔ اس سے یہ پتہ چلانا مقصود تھا کہ بی جے پی کا کور ووٹ بینک اونچی ذات کے ہندو یعنی برہمن، ٹھاکر یا چھتری اور ویشیہ یا بنیا کس طرح اپنی آبادی کی شرح سے زیادہ وسائل پر یا سرکاری نوکریوں پر قابض ہیں۔ مگر چونکہ اب نتیش کمار ہی بی جے پی کے خیمہ میں چلے گئے ہیں، اس لئے یہ داؤچل نہیں پایا ہے۔ مگر کانگریس کو امید ہے کہ فلاحی وعدوں سے وہ درمیانی اور نچلی ذاتوں کے ہندوؤں کو لبھانے میں کامیاب ہوگی۔ اس کے علاوہ پارٹی کا خیال ہے کہ روزگار کی کمی پر نوجوانوں میں حکومت کے خلاف شدید غصہ ہے جس کو وہ کیش کرسکتی ہے۔ مگر بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس ہندی بولنے والی ریاستوں میں واپسی کر پائے گی، جہاں بی جے پی اپنے ہندو توا ایجنڈاکے سہارے ایک بارپھر 2019کی کارکردگی کو دہرانے پر تلی ہوئی ہے؟ اور کیا بی جے پی جنوبی بھار ت کو اس بر فتح کر سکے گی؟ 1687 میں شمالی بھارت کے حکمران اورنگ زیب نے گولکنڈہ یعنی دکن کو فتح کرکے مغلیہ سلطنت میں شامل کردیا تھا۔مگر اس کے بعد ہی اس عظیم سلطنت کا زوال بھی شروع ہوگیا۔ کیا تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا ئے گی؟ویسے اگر دیکھا جائے، اگر اپوزیشن جنوبی صوبوں کو ہندو تو کی لہر سے بچا پاتی ہے اور مشرقی صوبوں میں ان سیٹوں پرجہاں پچھلی پار بی جے پی نے کم فرق سے میدان مار لیا تھا، میں پوری طاقت لگاتی ہے، تو مودی کیلئے تیسری بار وزیرا عظم بننا نا ممکن ہوگا۔ (ختم شد)
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز