مملکت میں آئین و قانون کی حکمرانی ہے۔ قومی بدقسمتی کہ 70 سال سے ریاستی نظام کبھی من و عن آئین و قانون کےمطابق نہ چل پایا۔ 1950 کی دہائی ہی سے ریاست کے اندر ایک’’ طاقتور ریاست‘‘ DEEP STATE قائم ہو گئی ، اپنے آپکو آئین و قانون سے بالا تر رکھا۔ 7 دہائیوں سے حکمرانی عملاً ” طاقتور ریاست ” کے دائرہ اختیار میں ہے ۔ جہاں ” طاقتور ریاست ” کو آئین و قانون کے دائرے میں لانا ایک لاینحل مسئلہ، وہاں ” طاقتور ریاست ” کا رونا کہ مروجہ آئین و قانون انکو انصاف دینے سے قاصر ہے ۔ چنانچہ اپنے آپکو انصاف دلانے کیلئے ہمیشہ ماورائے آئین و قانون ہتھکنڈوں کو ترجیحی بنیادوں پر اختیار کئے رکھا ۔
7 دہائیوں سے طاقت کے آگے سِول حکومتیں، عدلیہ ، شہری ، آئین و قانون سب لاچار و مجبور بنے ہیں ۔ جسٹس منیر سے لےکر ثاقب نثار تا جسٹس بندیال جیسوں کے سنہری حروف سے لکھے گئے درجنوں فیصلے آئین و قانون کی موجودگی ہی میں تو پروان چڑھے ۔ اِدھر سیاستدان نظروں سے گر ے اُدھرجملہ غیر معترضہ بنا دیا ۔ ماضی قریب میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے کردار کو ہی پرکھیں ۔ اگرچہ آئین و قانون کی پاسداری کا حلف اٹھایا، جتنے غیرآئینی غیرقانونی کام ریاست اور اداروں کیخلاف اس “جوڑے ” نے برپا رکھے، لاقانونیت میں دھاک بٹھا گئے ۔
ان حالات میں آئینی حقوق رکھنے والا عام پاکستانی آئین و قانون کےمطابق انصاف کیلئے کس کا دروازہ کھٹکھٹائے ؟بمطابق آئینی شق 8 تا 28 بنیادی حقوق اسکو عدلیہ کے روبروفریاد پر اُکساتے ہیں ۔ ماضی گواہ کہ جب کبھی ” طاقتور ریاست ” ایک فریق ہو تو آئین اور قانون کی تشریح عدلیہ نہیں ، ” طاقتور ریاست ” کرتی ہے ۔ صدر زرداری ( میمو گیٹ ) ، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ( سمری ٹرائل اور بَرطرف ) ،و زیراعظم نواز شریف کو شاید آج تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ2014 میں “سیاست نہیں ریاست بچاؤ ” ، کی آڑ میں ماورائے آئین و قانون انکی حکومت پر کیوں چڑھائی ہوئی ؟ بد نصیبی ہر ایسے موقع پر عدلیہ نے ماورائے آئین و قانون وارداتوں میں” طاقتور ریاست ” کیلئے اپنا کندھا حاضر رکھا ۔ حالات جیسے بھی ہوں جب کوئی عام شہری انصاف کیلئے بلبلاتا ہے ، بے بسی کے عالم میں عدالتوں کی طرف دیکھتا ضرور ہے واہمہ ساتھ جُڑا کہ عدالتیں شاید کچھ مدوں میں بے بس رہیں۔ یہ معمہ لا ینحل کہ ایسے حالات میں عام شہری انصاف کیلئے اپنی نظریں قاضی القضاۃ پر جمائے یا پھر دلجمعی سے ” طاقتور ریاست ” کی طرف دیکھے ۔
5 مارچ 2024 کوجنرل عاصم منیر کی زیر صدارت 263ویں کور کمانڈرز کانفرنس ہوئی ، اسی تناظر میں ISPR کی طرف سے ایک اعلامیہ جاری ہوا۔9مئی کے حوالے سے ایک حصہ من وعن نقل ہے،”وزیر اعظم پاکستان کے عزم کے مطابق، فورم نے اعادہ کیا کہ:9مئی کے منصوبہ سازوں، اشتعال دلانے والوں، حوصلہ افزائی کرنے والوں، شہدا ء کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے والوں اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو یقینی طور پر قانون اور آئین کی متعلقہ دفعات کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا” ۔” اس سلسلے میں مسخ شدہ، ابہام اور غلط معلومات پھیلانے کی بدنیتی پر مبنی کوششیں بالکل بے سود ہیں جو صرف مذموم سیاسی مفادات کے حصو ل کیلئے منظم مہم کا حصہ ہیں، تاکہ 9 مئی کی گھناؤنی سرگرمیوں پر پردہ ڈالا جا سکے” ۔
کم و بیش حکومت ، عمران خان مع” طاقتور ریاست ” اس بات پرمتفق کہ ” سانحہ 9 مئی میں ملوث تمام افراد کو آئین وقانون کی متعلقہ دفعات کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے ” ۔سوال اتنا ، اسکا تعین کون کریگا کہ کون کتنا گنہگار ہے ؟ سانحہ 9 مئی یقینا ً قومی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ جو دہائیوں اپنے اثرات مرتب رکھے گا ۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود کہ 11 مئی کو سپریم کورٹ نے عمران خان کو غیر معمولی طریقہ سے فیزیکل ریمانڈ سے چھڑوا کر اپنی تحویل میں لیا تو موصوف نے سپریم کورٹ کے اصرار کے باوجود سانحہ 9 مئی کی مذمت میں ہچکچاہٹ دکھائی ۔ اگلے دن جب ہائیکورٹ نے ضمانت منظور کی تو دوبارہ معذرت کیلئے اُکسایا ، عمران الفاظ چباتے متذبذب رہے ۔ 13 مئی کو رہا ہوکر لاہور پہنچے تو دو فقروں ، ” اچھا! گرفتار آپ کریں اور احتجاج ہم وزیراعظم ہاؤس کے باہر کریں، دوبارہ گرفتار کیا تو دوبارہ یہی کچھ ہوگا ” کے بعد عمران خان نے ہمیشہ کیلئے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔
میرے نزدیک سانحہ 9 مئی سے بڑا المیہ،” طاقتور ریاست ” کو اپنے آپ کو انصاف دلانے کیلئے آئین اور قانون سے تجاوز کرنا پڑا۔ تاریخ شاہد وطنی آئین قانون کبھی ” طاقتور ریاست ” کو انصاف دلانے کیلئے کافی نہیں رہے۔ اگرچہ عسکری ادارے سانحہ 9 مئی میں حقی سچی مدعی ہے ۔ کور کمانڈر زکانفرنس میں اعادہ بھی ، ” آئین و قانون کی دفعات کے تحت فیصلے ہونگے ” ، خوش آئندہے ۔ درحقیقت آج تک آئین و قانون ہاتھ میں لیکر انصاف پلس لیا گیا ۔ ہر جمعرات کو میری ملاقات سانحہ 9 مئی کے فوجی تحویل میں ملزمان سے ہوتی ہے ۔109 افراد 10 ماہ سے حراست میں ہیں یعنی کہ حوالات میں بند ہیں یعنی کہ 10 ماہ سے ایک قیدی والے حقوق سے بھی محروم ہیں ۔ نیب قانون بوجوہ 90 دن کی حوالات پر ڈریکونین قانون کہا جاتا رہا ۔ 109 افراد آج بھی فزیکل ریمانڈ پر فوجی تحویل میں ہیں ۔
سانحہ میں ملوث ہزاروں دوسرے ملزمان کے مقدمات مروجہ قوانین کے تحت انسداد دہشتگردی کی عدالت میں چل رہے ہیں۔ چند دن کی حوالات کے بعد سب کو باجماعت جیل بھیج دیا گیا تھا ۔عدالتی نظام پردباؤ کے باوجود رفتہ رفتہ ماتحت عدالتوں سے درجنوں ضمانت پر رہا ہو کر گھر بھی آ چکے ہیں ۔ خدا خدا کر کے 23 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے 109 افراد کاکیس سنا تو ملٹری کورٹ کا ٹرائل کالعدم قرار دے دیا ۔ قطع نظر کہ 7 ہفتوں تک سپریم کورٹ کی حکم عدولی ہوئی ، 13 دسمبر کو نظرِ ثانی اپیل میں سپریم کورٹ نے فیصلہ کالعدم قرار دیکر ملٹری کورٹس ٹرائل جاری رکھنے کی جب اجازت دی تو ساتھ حکم نامہ لَف کہ فیصلہ نہ دیں۔ 109 افراد کا ملٹری کورٹس ٹرائل مکمل ہوئے بھی 3 ماہ بیت چکے۔ ہر ملزم نے محدود رسائی کے باوجود محنت مشقت سے اپنا اپنا کیس لڑا۔ قیدیوں کی آہ و بکا کہ ملٹری کورٹس کو کم از کم فیصلہ ہی سنانے دیا جاتا۔ شاید حوالات کی اذیت سے نجات ملتی اور سزا کی صورت میں جیل منتقل ہوتے۔
ایسے میں حکومت ، ادارے جب آئین و قانون کےمطابق انصاف دینے کا ورد کرتے ہیں تو اس کو شقاوت کے علاوہ بھلا کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ 109 افراد آئین اور قانون کےمطابق اپنا فیصلہ حاصل کرنے کیلئے کس کو پکاریں؟109مقید نفوس کو صرف اور صرف فیصلہ چاہیے، بھلے انکو سُولی پر ہی لٹکا دیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ