کارناموں پر فخر کرنا چاہئے! : تحریر الطاف حسن قریشی


زندگی میں کامیابیاں بھی ہوتی ہیں اور ناکامیاں بھی، مگر وہ قومیں ترقی کرتی اور اَپنا وجود طویل عرصے تک قائم رکھتی ہیں جو اُمید کے دامن سے وابستہ رہتی اور اَپنے کارناموں پر فخر کرتی ہیں۔ اچھی باتوں کا سچا شعور اَور اُن کے ساتھ پختہ پیوستگی ہی اقوام اور اَفراد کو تروتازہ رَکھتے ہیں۔ مایوسی اور مسلسل بےاطمینانی میں غلطاں لوگ خزاں رسیدہ پتوں کی طرح جھڑتے چلے جاتے ہیں۔ یہ تو اعلیٰ روایات اور توقعات کا ایک مضبوط سلسلہ حیاتِ مستعار کو شاداب اور متحرک رکھتا ہے۔ سب سے بڑی حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور سچائیوں کے آفاقی نظام پر کامل یقین بنی نوع انسانی کی فلاح کا ضامن ہے۔ اِس ایقان میں ضعف پیدا ہونے سے معاشرے میں ابتری پھیلتی ہے اور مایوسیاں ڈیرے ڈال لیتی ہیں۔ انسانی تہذیب کی حفاظت کیلئے اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن میں نیکی اور بھلائی کو پھیلانے اور بدی کو روکنے کا حکم متعدد بار آیا ہے۔

ہم پاکستانی جو بفضلِ خدا بہت بڑی تعداد میں مسلمان ہیں اور اِس ارشادِ ربانی سے بخوبی واقف ہیں کہ خدا کی رحمت سے مایوس ہونا بہت بڑا گناہ ہے، اپنی سوچوں اور رَوزمرہ کے رویّوں میں کسی قدر مایوسی کا شکار دِکھائی دیتے ہیں۔ اِن کے چاروں طرف نعمتوں اور آسائشوں کا ایک سماں بندھا ہوا ہے اور اُن پر بےپایاں رحمتوں کی بارش ہوتی رہتی ہے، مگر وہ بالعموم دل شکستہ اور بجھے بجھے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے اندر بہت ساری خوبیاں پائی جاتی ہیں، ہم بالعموم جفاکش اور صاف دل ہیں اور اَپنے بھائیوں کے دکھ درد میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔ ہمارے محنت کشوں کی محنت اور صلاحیت سے شرقِ اوسط کے صحرا آباد ہوئے ہیں اور اُن کی معیشتوں میں استحکام آیا ہے۔ برطانیہ، امریکہ اور دُوسرے اَن گنت ملکوں میں پاکستانی ڈاکٹر، انجینئر اور تعلیمی ماہرین حیرت انگیز کارنامے سرانجام دے رہے ہیں، جبکہ اُنکے نوجوان نشے کی حالت میں سڑکوں کے کنارے بےسُدھ پڑے رہتے ہیں۔ پاکستانی عوام کی اِن خوبیوں کا ہمارے حکمراں ذکر تو کرتے ہیں، مگر اِن کی عظمتوں کا حقیقی معنوں میں اعتراف کم ہی کیا جاتا ہے۔ دکھ یہ ہے کہ اِن کی لامحدود صلاحیتوں کو جِلا بخشنے کا ایک مؤثر نظام صحیح معنوں میں آج تک قائم ہی نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک غیریقینی صورتِ حال ہر سُو طاری ہے اور ہر آن ناگہانیوں کا دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔

اِس اداسی، بےیقینی اور ذہنی پژمردگی کے خاتمے کا ایک ہی راستہ ہے کہ خوبیوں کے اعتراف اور اُن پر فخر کرنے کا کلچر پیدا کیا جائے۔ غالباً ایک صدی تک انگریزوں کے غلام رہنے کا نفسیاتی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلمانوں میں زندہ قوموں کی اعلیٰ صفات بڑی حد تک ماند پڑ گئیں اور وُہ اِحساسِ کمتری کا مستقل طور پر شکار ہو گئے، چنانچہ اُنہیں بڑے سے بڑا کارنامہ بھی متاثر نہیں کرتا۔ اُن کے مزاج میں احتجاج کا عنصر غالب ہے اور وُہ ہر چیز میں مین میخ نکالنے کے خوگر ہو چکے ہیں، مگر تمام تر زوال کے بعد اُن کے اندر وُہ عظیم لوگ ہمیشہ موجود رَہے جنہوں نے آزادی کی خاطر لازوال قربانیاں دیں اور پُرامن قانونی جدوجہد کے ذریعے اور قائدِاعظم کی فقید المثال قیادت میں پاکستان حاصل کیا۔ یورپی مؤرخین لکھتے ہیں کہ پاکستان کا قیام بیسویں صدی کا سب سے بڑا سیاسی معجزہ تھا اور قائدِاعظم نے ناممکن کو ممکن بنا دیا تھا، مگر ہمارے ہاں ایسے لوگ خاصی تعداد میں موجود ہیں جو حالات سے دلبرداشتہ ہو کر قیامِ پاکستان ہی کو تمام خرابیوں کی جڑ سمجھتے ہیں۔ مزید بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ملک سے باہر جاتے ہی وہ پاکستان کی خرابیاں پوری فصاحت سے بیان کرتے ہیں۔ اِس کے وجود میں ہزاروں کیڑے ڈال کر بہت خوش ہوتے ہیں اور اَپنے آپ کو دانش وری کے منصب پر فائز سمجھتے ہیں، حالانکہ وہ اَپنی تاریخ سے پوری طرح واقفیت ہی نہیں رکھتے۔

3 جون 1947ء کو ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا، تو اِس منصوبے پر غوروخوض کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا اجلاس قائدِاعظم کی صدارت میں دہلی کے امپیریل ہوٹل میں منعقد ہوا۔ اِس میں بحث و تمحیص کا سلسلہ دراز ہوتا گیا، کیونکہ پنجاب اور بنگال کی تقسیم بیشتر ارکان کو قبول نہیں تھی۔ اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائدِاعظم نے فرمایا کہ اِس منصوبے کو قبول یا رد کرنے کا اختیار آپ کو حاصل ہے، تاہم مَیں اپنی یہ رائے دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگرچہ یہ منصوبہ ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا، مگر ہندوستان کے شمال مغرب اور شمال مشرق میں دو زرخیز اور معدنی دولت سے مالامال اور لاکھوں مربع میل پر پھیلے ہوئے وسیع و عریض خِطے ایک عظیم سلطنت کے طور پر مسلمانوں کے حصّے میں آ رہے ہیں، یہ ایک ایسی نعمت ہے جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اُن کی اِس تقریر کے بعد کونسل نے اتفاقِ رائے سے منصوبہ قبول کر لیا جس کے نتیجے میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست وجود میں آئی۔

اِس سیاسی معجزے سے انکار کرنے والے اِس مرض میں مبتلا ہیں کہ پاکستانی قوم کوئی بڑا کام سرانجام ہی نہیں دے سکتی۔ اِس کا ایک چشم کشا واقعہ پاکستان کے ایک ایڈیٹر نے سنایا۔ پنجاب یونیورسٹی لاء فیکلٹی کے پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ نے افطاری کا اہتمام کیا جس میں جناب ارشاد اَحمد عارف میرے پہلو میں بیٹھے تھے۔ گفتگو میں معاشرے میں پھیلی ہوئی بےیقینی کی بات چل نکلی۔ اُنہوں نے اپنا واقعہ سنایا کہ غوری میزائل کے کامیاب تجربے کے فوراً بعد میرا کراچی جانا ہوا۔ وہاں جناب نصرت مرزا سے ملاقات ہوئی جو مجھے ایک تقریب میں لے گئے جس میں نامور صحافیوں اور عمائدین کے علاوہ چین کے قونصل جنرل بھی موجود تھے۔ ہمارے ایک دانش ور نے چین کے قونصل جنرل سے کہا کہ ہم آپ کے بےحد شکر گزار ہیں کہ آپ کے ملک نے غوری میزائل کے تجربے میں پاکستان سے غیر معمولی تعاون کیا۔ قونصل جنرل نے اُن صاحب کی طرف گہری نظر سے دیکھا اور کہا پاکستانیوں کو اِس اہم کارنامے پر فخر کرنا چاہیے کہ اِس کے سائنس دانوں نے یہ معرکہ تنِ تنہا ہی انجام دیا ہے، ہمارا اِس میں کوئی ہاتھ نہیں۔ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام ہم سے کہیں بہتر ہے۔ پاکستانی قوم کو اَپنے اوپر اعتماد ہونا چاہیے کہ خود اِعتمادی میں ترقی کا راز مضمر ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ