ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر ، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور شہریت قانون میں ترمیم جیسے ایشوز کو لیکر ہی بی جے پی اسوقت فی الحال میدان میں ہے۔ 2019کے برعکس اس وقت بی جے پی کے پاس کوئی بڑا جذباتی ایشو نہیں ہے۔ 2019میں پلوامہ کشمیر میں حفاظتی دستوں پر حملہ اور پھر بالا کوٹ پر بھارتی فضائیہ کی کارروائی نے ایک ہیجا ن ملک میں برپا کردیا تھا، جس کا مودی نے خاطر خواہ فائدہ اٹھا کر ایوان میں 303نشستیں حاصل کیں۔ ان میں سے 224 نشستوں پر شمالی بھارت میں کامیابی حاصل کی ۔ 2019میں بہار صوبہ کی 40نشستوں میں 39بی جے پی اور اسکے اتحادیوں کو مل گئی تھیں۔ اسی طرح اتر پردیش کی کل 80میں سے 62، مدھیہ پردیش کی 28میں سے 27، گجرات، ہریانہ، ہماچل پردیش، جھارکھنڈ اور اتراکھنڈ کی سبھی پارلیمانی سیٹیں بی جے پی کی مل گئی تھیں۔ یعنی جتنی سیٹیں شمالی بھات سے مل سکتی تھی، وہ مل چکی ہیں، اب اس میں اضافہ کی گنجائش کم ہی ہے۔ا سلئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کسی جذباتی موضوع کے بغیر اور جنوبی صوبوں میں قدم جمائے بغیر 370سیٹیں لانا ناممکن ہے۔ اسلئے اگر battle ground statesیعنی انتخابی لحاظ سے اہم صوبوں پر نظر ڈالی جائے، تو اقتدار میں برقرار رہنے کیلئے جنوب کے پانچ صوبوں اور مہاراشٹرا میں بی جے پی کو اس بار بھاری کارکردگی دکھانی پڑے گی جس کے بعد ہی وہ 370کا ہندسہ پار کرسکتی ہے۔ مہاراشٹرہ میں پچھلی بار شیو سینا کے ساتھ ملکر دونوں نے 48میں سے 41سیٹوں پر قبضہ کیا تھا۔ مگر بعد میں دونوں الگ ہوگئے اور بال ٹھاکرے کے بیٹے ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں شیو سینا اس وقت اپوزیشن اتحاد میں ہے۔ حالانکہ اس کا ایک دھڑا بی جے پی کے ساتھ ہے، مگر اس کا سیاسی وزن بہت کم ہے۔ جنوبی بھارت میں لوک سبھا کی 131نشستیں ہیں اور 2019میں بی جے پی نے ان میں سے محض 30سیٹوں پر ہی کامیابی حاصل کی تھی۔ ان میں سے بھی 26سیٹیں کرناٹک سے ملی تھیں اور چار سیٹیں تلنگانہ سے حاصل ہوئی تھیں۔ بقیہ تین صوبوں اور دو مرکزی زیر انتظام علاقوں پڈچری اور لکشدیپ میں اس کا کھاتہ ہی نہیں کھل سکاتھا۔ کرناٹک اور تلنگانہ کے صوبائی انتخابات میں ایک سال قبل ہی کانگریس نے بھارتی اکثریت حاصل کرکے اقتدار پر قبضہ کیا ہے۔ اس لئے کرناٹک یا تلنگانہ میں 2019جیسی کارکردگی کو دوبارہ حاصل کرنا بی جے پی کیلئے مشکل ہوگا۔ ابھی تک جنوبی صوبوں میں کرناٹک ہی ایسا صوبہ ہے، جہان بی ایس یڈورپا کی قیادت میں دو بار بی جے پی اقتدار میں آچکی ہے۔ جنوبی بھارت کو فتح کرنے کیلئے ان دنوں مودی مسلسل ان صوبوں کے دورے کر رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ وہ صرف شمالی بھارت کا لیڈر ہونے کا دھبہ مٹا کر خوود کو ملک گیر لیڈر کے طور پرپیش کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جنوبی بھارت کو فتح کئے بغیر وہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی وراثت کو تاریخ کے صفحات سے مٹا نہیں سکتے ہیں یا اپنے آپ کو نہرو ثانی کے بطور پیش نہیں کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت کوآئندہ چند برسوں میں پانچ ٹریلین اکانومی بنانے کا خواب جنوبی صوبوں کے بغیر ناممکن ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اگر جنوب کی پانچ ریاستیں بشمول گجرات اور مہاراشٹرہ بھارت کے حصے نہ ہوتے، تو اس کا حال برونڈی، صومالیہ یا جنوبی سوڈان سے بد تر ہوسکتا تھا۔ پورے بھارت کی اقتصادیات کے استون جنوبی بھارت کی کارکردگی پر ٹکی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی ریاست کرناٹک نئی دہلی سے حاصل ہونے والے ہر روپے کے بدلے مرکزی ٹیکسوں میں 2.12 روپے کا حصہ ڈالتی ہے۔اس کے برعکس، شمالی ریاست اتر پردیش مرکز سے ایک روپے لیکر قومی خزانے میں صرف 56 پیسہ کا حصہ ڈالتا ہے۔ واضح طور پر جنوبی ریاستیں اپنے شمالی ہم منصبوں کو معاشی سہارا دیتی ہیں اور مرکزی حکومت کا سارا تام جھام اور بھارت کو معاشی طاقت بنانے کے وعدے ان ہی کے دم پر ہے۔ کئی عالمی کمپنیاں، جو مینوفیکچرنگ، چین سے منتقل کرنا چاہتی ہیں کی نظریں جنوبی بھارت کے صوبوں پر ہی ٹکی ہوئی ہیں۔ کیونکہ نہ صرف اس علاقے میں لا اینڈ آرڈر بہتر ہے، بلکہ تکنیکی مہارت وافر مقدار میں موجودہے۔ بھارت کی الیکٹرنکس کی برآمدات میں ان پانچ صوبوں کا حصہ 46فیصد، یونی کارن میں بھی 46فیصد، انفارمیشن ٹکنالوجی کی برآمدات میں 66فیصد اور اس کے علاوہ عالمی سطح کے آیڈیٹرز، آرکیٹیکٹ اور دیگر فنی ماہرین 79فیصد جنوبی بھارت میں ہی ہیں۔ شمالی بھارت میں جہاں نوکریوں کا کال پڑا ہے، جنوب میں ملازمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ چاہے ڈیفینس یا اسپیس کے انجینئریا سائنسدان ہوں، تو اکثر جنوبی بھارت سے ہی تعلق رکھتے ہیں، اس لئے سائنس سے تعلق رکھنے والے ادار ے یا لیبارٹریز بھی اسی خطے میں ہیں۔ جنوب میں پہلے سے ہی کئی اقتصادی کلسٹرز ہیں جن کی فی کس آمدنی $3000 سالانہ سے زیادہ ہے، شمالی بھارت میں اس طرح کی فی کس آمدن صرف دارالحکومت دہلی کے آس پاس اور گجرات کے چند علاقوں تک محدود ہے۔ تلنگانہ نے توگزشتہ چھ سالوں میں اپنی فی کس آمدنی دوگنی یعنی $4000 کر دی ہے۔ جنوبی بھارت کے سیاست دانوں کو بھی اپنی ریاستوں میں بہترین کارکردگی دکھانے کے مواقع ملے ہیں ، کیونکہ مغربی ممالک کی طرز پر ہر پانچ سال کے بعد اقتدار میںتبدیلی آتی ہے۔ اس طرح پاور کا سائیکل گردش کرتا رہتا ہے اور حکمران کا احتساب بھی ہوتا رہتا ہے۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز