سوشل میڈیا پر کنٹرول کا ماحول : تحریر نصرت جاوید


ٹویٹر جب ایکس(X)ہوا تو اس کے نئے مالک نے اصرار کیا کہ جس پلیٹ فارم کو اس نے خریدا ہے وہ مجھ جیسے یاوہ گو افراد کو لوگوں کے روبرو دانش مند بناکر پیش کرتا ہے۔کسی معاملے پر ہم کچھ لفظ لکھیں تو پڑھنے والوں کا خاص گروہ انہیں شیئرز اور لائیکس کے ذریعے مزید لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ بتدریج ایسے لوگوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہونا شروع ہوجاتا ہے جو آپ کے خیالات کا بے تابی سے انتظار کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ایسے افراد آپ کے فالورز پکارے جاتے ہیں۔ایک حوالے سے گویا آپ کے مرید۔
پرانے دور کی پیری -مریدی والے سلسلے میں مریدوں کی تعداد میں اضافہ پیر کی طمانیت کے علاوہ مادی یا مالی اعتبار سے احساس تحفظ بھی فراہم کرتا تھا۔ٹویٹر کو خریدکر اسے ایکس بنانے والا ایلون مسک مگر ایک ہوشیارسرمایہ دار ہے۔انسانی جبلت سے بخوبی آگاہ ہوتے ہوئے وہ دریافت کرچکا تھا کہ ٹویٹر کے عادتا استعمال کے ذریعے لوگوں کے روبرو دانش مند نظر آتے خواتین وحضرات اپنے فالورز یا مریدین کی ستائش کے نشے میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ اپنے بیان کردہ خیالات کے زیادہ سے زیادہ شیئرز اور لائیکس کی تمنا انہیں لت کی طرح چمٹ چکی ہے۔وہ اس کے بغیر زندگی گزارنا ممکن محسوس نہیں کرتے۔
ٹویٹر کے ذریعے مرید ڈھونڈتے دانش مندوں کی علت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایلون مسک نے لہذا فیصلہ کیا کہ اس کے خریدے پلیٹ فارم کی بدولت دانش مند شمار ہوتے افراد کو اپنی شناخت برقرار رکھنے اور اجاگر کرنے کے علاوہ اسے نقالوں سے بچانے کے لئے ایکس نامی پلیٹ فارم کو سالانہ بنیادوں پر کچھ رقم ادا کرنا ہوگی۔مطلوبہ رقم کی ادائیگی کے بعد ہی ایکس اپنے پلیٹ فارم پر موجود دانش مندوں کو نیلے رنگ والے ٹِکسے نمایاں کرے گا۔ یہ ٹِک ان لوگوں کو یقین دلائے گا کہ مثال کے طورپر وہ جو پیغام دیکھ رہے ہیں یہ نصرت جاوید ہی نے لکھا ہے۔بلیوٹِک گویا میری دانش کو ایک ہٹی کی صورت دے کر مریدوں کیلئے وہاں تک پہنچنے کی راہ بناتا ہے۔
گزشتہ برس جب ایکس نے اپنی دانش کی نمائش کے عادی مجھ جیسے افراد سے بلیو ٹِک والی شناخت کی فراہمی کے لئے چند ڈالروں کا تقاضہ کیا تو میں کنفیوڑ ہوگیا۔ دیانتداری سے اپنے بارے میں ہم کہاں کے دانا تھے والا سوال اٹھاتا رہتا ہوں۔بعدازاں مگر کمزور دل میں خیال یہ بھی آیا کہ ٹویٹر پر کئی افراد آپ کا نام استعمال کرتے ہوئے کوئی ایسی بات بھی لکھ سکتے ہیں جو حکمرانوں کو ناراض کرنے کے علاوہ فساد خلق کا باعث بھی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ برملا کے بے تحاشہ قاری یہ کالم گھر میں آئے اخبار کی بدولت نہیں بلکہ ایکس کے ذریعے پڑھتے ہیں۔ بنیادی طورپر ان کی خاطر ا یکس کو رقم بھجوادی۔ تین روز قبل تاہم مجھے یاد دلایا گیا کہ 25مارچ کو میرا بلیو ٹِک والا ایک سال مکمل ہوجائے گا۔ میں اگر اس میں مزید ایک سال کی توسیع چاہتا ہوں تو مجھے اس دن تک سالانہ فیس ادا کرنا ہوگی۔
یہ پیغام ملنے کے بعد ایک بار پھر پریشان ہوگیا ہوں۔گزشتہ ایک ماہ سے پاکستان میں ایکس تک رسائی 24گھنٹوں میں چند ہی لمحات کے لئے میسر ہوتی ہے۔سندھ اور اسلام آباد ہائی کورٹس بھی ابھی تک پتہ نہیں چلا پائی ہیں کہ ایکس کی نشریات میں مسلسل تعطل کا ذمہ دار کون ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات جناب عطا تارڑ صاحب نے عہدہ سنبھالتے ہی ایک ٹی وی انٹرویو دیا تو اس کے دوران نہایت معصوم چہرے کے ساتھ اس حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش کی کہ ایکس تک رسائی دشوار تر ہورہی ہے۔ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار اس لئے بھی نہیں تھے کیونکہ انہوں نے بطور وفاقی وزیر ایسا کوئی نوٹی فکیشن یا اعلامیہ نہیں دیکھا تھا جس کے ذریعے حکومت پاکستان نے ان دنوں ایکس کہلاتے ٹویٹر کی بندش کا حکم جاری کیا ہو۔
سوال اٹھتا ہے کہ اگر ایکس تک میری رسائی محبوب کے چہرے کی طرح مشکل سے مشکل تر ہوتی رہے گی تو میں اس کے استعمال کی سالانہ فیس ادا کیوں کروں۔ اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں ڈھونڈ پایا ہوں۔کبھی سوچتا ہوں کہ ایکس تک پہنچنے میں ان دنوں جو دشواریاں ہیں وہ غالبا عارضی ہیں۔ اچھے دنوں کی آس میں لہذا مجھے ایکس والوں کو سالانہ فیس ادا کردینی چاہیے۔ ساتھ ہی مگر حکمرانوں تک رسائی کے حامل افراد مجھے خبردار کئے چلے جارہے ہیں کہ سوشل میڈیا پر کنٹرول کا سلسلہ تو ابھی شروع ہوا ہے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ محض مقتدرہ ہی نہیں بلکہ ہمارے روایتی سیاستدانوں کی بے پناہ اکثریت بھی نہایت سنجیدگی سے یہ طے کرچکی ہے کہ سوشل میڈیا وطن عزیز میں اضطراب بڑھارہا ہے۔کرکٹ کی وجہ سے کرشمہ ساز کی شہرت کے حصول کے بعد سیاست میں آئے عمران خان اور ان کے عاشقان نے میڈیا کی اس نئی صنف کے ذریعے روایتی میڈیا کو بکاؤاور سچ کو چھپاتا ثابت کردیا۔ روایتی میڈیا کی ساکھ تباہ کرنے کے بعد سوشل میڈیا سے جو سچ پھیلایا گیا وہ ہمارے عوام کو مسلسل اضطراب کی کیفیت میں رکھے ہوئے ہے۔ ملک میں سیاسی ومعاشی استحکام کو یقینی بنانے کے علاوہ لوگوں کو اضطرابی کیفیات سے محفوظ رکھنے کے لئے بھی ایکس،یوٹیوب اور فیس بک جیسے پلیٹ فارموں کو قابو میں لانا ہوگا۔ دنیا کے کئی ممالک ہیں جہاں کے عوام مذکورہ بالا پلیٹ فارموں کی فراہم کردہ عیاشی کے بغیر خوشحال اور مستحکم زندگی گزاررہے ہیں۔پاکستان کو ایسی مصیبتیں پالنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ہمارے ہمسائے میں نریندر مودی نے ٹویٹر اور فیس بک کو اپنی حکومت کے آگے جوابدہ بنارکھا ہے۔ بنگلہ دیش نے بھی سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارموں کو ریگولیٹ کرلیا ہے۔ ان دنوں سری لنکا کی حکومت بھی ایسے کئی قوانین تیار کررہی ہے جو سرکار کی سوشل میڈیا پر بھد اڑانے کو سنگین جرم ٹھہرانے میں مددگار ہوں گے۔سادہ ترین الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ پاکستان میں بھی ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش شروع ہوچکی ہے جو بالآخر ہمیں اس دور میں واپس لے جائے گا جن دنوں سچ صرف سرکار کے چلائے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وڑن کے ذریعے لوگوں کو میسر ہوتا تھا۔ پڑھے لکھے افراد کو خبریں وغیرہ روایتی اخبارات کے ذریعے مل جاتی تھیں۔اب اخباروں کے ڈیجیٹل ورژن بھی سرکار کے فراہم کردہ لائسنس اور انٹرنیٹ سہولت کے ذریعے لوگوں تک پہنچائے جاسکتے ہیں۔
ایوان ہائے اقتدار تک متحرک رسائی کے حامل افراد سے تفصیلی گفتگو کے باوجود میں 25مارچ تک ایکس کو سالانہ فیس ادا کرنے کی جانب مائل ہورہا ہوں۔ وجہ اس کی فقط یہ ہے کہ فیلڈ مارشل ایو ب خان کے زمانے سے دیکھے ہیں بہت ہم نے میری دھرتی ویسے بھی بلھے شاہ پیدا کرنے سے باز نہیں رہتی۔بلھے شاہ اگرچہ شاذ ہی پیدا ہوتے ہیں۔وہ نہ بھی ہوں تب بھی بھانڈ اور جگت ہمارے خطے میں ابدی حیثیت کے حامل ہیں۔ بھانڈ کو جگت کی وجہ سے چپڑاس کے ہاتھوں سزا ملتی ہے۔ صحافی کو بھی سرکار کی چپڑاس برداشت کرنا ہوگی تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت