وزیر دفاع خواجہ آصف نے اعلان کیا ہے کہ وہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو پارلیمنٹ کے سامنے طلب کرنے اور اُن کا احتساب کرنے کیلئے قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کریں گے۔ اُن کا کہنا تھا ان سابق جرنیلوں اور عمران خان سے دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے پانچ ہزار افراد اور اُن کے خاندان کے لوگوں کی عمران حکومت کے دوران افغانستان سے پاکستان منتقلی کی وجہ سے پاکستان میں ایک بار پھر دہشتگردی کے واقعات میں اضافےکے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں اُنہوں نے کہا یہی نہیں بلکہ ان جرنیلوں سے نواز شریف کی حکومت کے خاتمے اور دوسرے معاملات پر بھی جواب طلبی ہونی چاہیے۔ اُنہوں نے کہا یہ (جرنیل) ہوتے کون ہیں یہ سب کچھ کرنے والے۔ اس پر ٹی وی ٹاک شو اینکر نے وزیر دفاع سے پوچھا کہ ایسا نہ ہو کہ پارلیمنٹ کے سامنے جرنیلوں کو جواب طلبی کیلئے بلانے پر آپ کی حکومت کو ایک بار پھر گھر جانا پڑ جائے، اس پر خواجہ آصف نے کہا کہ ہم پہلے بھی گھر چلے گئے تھے گھر کا راستہ پتا ہے پھرچلے جائیں گے۔ اب دیکھتے ہیں کہ خواجہ آصف صاحب کب جرنیلوں کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہی کیلئے قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کرتے ہیں۔ اب اس بارے میں وزیراعظم، وزرا اور خواجہ صاحب سے سوال ہوتے رہیںگے تاکہ جس جواب دہی کی وزیردفاع نے بات کی وہ ممکن ہو سکے۔ اس بارے میں علم نہیں کہ کیا یہ خواجہ صاحب کا اپنا ذاتی فیصلہ ہے یا شہباز حکومت کی پالیسی؟ وجہ جو بھی ہے خواجہ صاحب نے ایک ایسا معاملہ اُٹھا دیا ہے جس کا اثر شہباز حکومت پر پڑ سکتا ہے اور اگر پاکستان کی تاریخ کو دیکھا جائے اور جیسا کہ ٹی وی اینکر نے کہا بھی کہ ایسا کرنے پر حکومت کی چھٹی بھی ہو سکتی ہے۔ بہتر ہوتا پہلے انتخابی تنازعات کی شکار شہباز حکومت اپنے پاؤں جما لیتی، معیشت کے اہم ترین چیلنج سے نبٹ لیتی، کچھ سیاسی اور معاشی استحکام حاصل کر لیتی تو پھر جرنیلوں کا احتساب کرنے کا کام شروع کرتی۔ لیکن خواجہ صاحب تو کافی جلدی میں لگ رہے ہیں۔ اگر خواجہ صاحب کے مشورہ کے مطابق حکومت جرنیلوں کے احتساب کا فیصلہ کرتی ہے اور اُنہیں پارلیمنٹ میں بلاتی ہے تو اس سے یقینی طور پر شہباز حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تناؤ پیدا ہونے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ ایسے کسی تناو کو کیا شہباز حکومت برداشت کر سکتی ہے یا اس وقت ملک کو جن مشکلات خصوصاً معاشی مشکلات کا سامناہے اُس کے تناظر میں ایسا اقدام پاکستان اور اس کے نظام کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے؟ لندن سے واپسی سے پہلے میاں نواز شریف بھی جرنیلوں کے احتساب کی بات کرتے تھے لیکن وہ شہباز شریف کے سمجھانے پر خاموش ہو گئے۔ عمومی طور پر یہ تاثر ہے کہ نواز شریف کی واپسی ایک مبینہ ڈیل کا نتیجہ تھی، الیکشن سے قبل اور الیکشن ڈے کو جو کچھ ہوااُس پر بھی بہت باتیں ہو رہی ہیں۔ شہباز شریف حکومت جیسے تیسے بنی اس سے ایک ہی توقع ہے کہ وہ پاکستان کی معیشت کو جنگی بنیادوں پر کام کرتے ہوے، بڑے بڑے فیصلے لے کر درست کرے ۔ جب معیشت کو ٹھیک کر لیا تو پھر جرنیلوں کا احتساب بھی ضرور کر لیجیے گا۔ وزیر دفاع کایہ کہنا کہ ہمیں گھر جانا پڑا تو ہم گھر چلے جائیں گے ہمیں گھر کا رستہ پتا ہے، اُس سنجیدگی کو ظاہر نہیں کرتا جس کی شہباز حکومت سے توقع ہے۔ اگر گھر جانے کا اتنا شوق ہے تو پھر حکومت لینے اور معیشت کو درست کرنے کی ترجیح کے وعدے کیوں کیے تھے۔ اس بات کی اتنی اہمیت نہیں کہ ن لیگ کی حکومت رہتی ہے یا نہیں، شہباز شریف وزیراعظم رہتے ہیں یا نہیں۔ اہم اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ حکومت جس کی بھی ہو پاکستان کو اس وقت معاشی چیلنجز سے نکالنا سب کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
حرف آخر: ایبٹ آباد حویلیاں میں ہزاروں کی تعداد میں غریب شہریوں کےلئے مفت ڈائلیسز اور علاج کیلئے بنایا گیا پاکستان کڈنی سینٹر مخیر حضرات کی امداد کا منتظر ہے ۔ اس کڈنی سینٹر کے قیام میں کلیدی کردار اداد کرنے والے ڈاکٹر خلیل الرحمن سے اُن کے موبائل نمبر 03005598569 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ