غزہ۔ تاریخ کی تباہ کن بھوک : تحریر محمود شام


کہئے ۔ روزے کیسے جارہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا شکر سب سے پہلے تو ہمیں ایک اور رمضان المبارک نصیب ہواکہ ہم مزاحمت کا ایک اور تجربہ کرسکیں، دن میں چند گھنٹے اپنی خواہشات پر قابو پاسکیں،جھوٹ سے گریز کرسکیں، اللہ تعالیٰ کے حضور عام مہینوں کی نسبت زیادہ حاضری دے سکیں، ہم تو مسجد کے ہمسائے میں ہیں، اس لیے یہ روح پرور منظر زیادہ قریب سے دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح بچے،نو عمر،نوجوان،بزرگ پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں رکوع و سجود میں دکھائی دیتے ہیں۔ بازاروں سے مالکان،ملازمین دکانیں چھوڑ کر نمازیں ادا کرنے آتے ہیں۔ پیشانیاں دمکتی ہیں، آنکھیں چمکتی ہیں، دل سے دُعائیں ہورہی ہیں۔ سب سے زیادہ گلوگیر آواز میں غزہ کے مظلومین کیلئے۔ اب تو اقوام متحدہ بھی چیخ اٹھی ہے کہ غزہ میں کال پڑا ہوا ہے، تاریخ کا غیر معمولی قحط، ہزاروں انسانوں کی زندگیاں بھوک چاٹ رہی ہے۔ عالمی خوراک پروگرام کے سربراہ کو مجبوراً یہ حقیقت بیان کرنا پڑی ہے غزہ میں انسان بھوکے مررہے ہیں،یہ بھوک اور غذا کی کم فراہمی انسانوں کی پیدا کردہ ہے، دس ہزار میں سے دو بچے غذا نہ ملنے سے روز دم توڑ رہے ہیں۔ ایک افسر کا بیانیہ یہ ہے کہ تاریخ میں اتنی تباہ کن بھوک کا سامنا کرتے لوگوں کی تعداد کبھی شُمار نہیں کی گئی۔

دنیا بھر میں مسجدوں میں صرف دعائیں ہورہی ہیں،پاکستان کے طول و عرض میں بھی ہمارے ہاتھ صرف دُعاؤں کیلئے اٹھے ہیں۔ کتنے ارب انسان اپنے روز مرہ کے معمولات میں مصروف ہیں،مسلمان حکمراں اپنی عیش و عشرت میں محو ہیں، ہزاروں کی تعداد میں اللہ تعالیٰ کی اشرف ترین مخلوق کو ایک طرف بھوک سے دوسری طرف اسرائیلی بمباری، فائرنگ سے، ناکہ بندی سے مرتے دیکھ رہے ہیںکیونکہ یہ مسلمان ہیں۔ کلمۂ طیبہ پڑھنے والے ہیں، 50 سے زیادہ اسلامی ممالک ہیں، جن کے پاس دولت بھی ہے، طاقت بھی ہے، ایٹمی قوت بھی ہے، ایک چھوٹا سا ملک اسرائیل بد مست ہاتھی بنا ہوا ہے۔ ایک امدادی خیراتی ادارے ’اوکسفام‘ نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ تمام عالمی انسانی قوانین کو روندتے ہوئے باقاعدہ منظّم طریقوں سے دیدہ دانستہ عالمی امداد کو غزہ میں نہیں جانے دے رہا ۔ اس بھیانک خوفناک انسانی آفت سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے نومولود ہیں، شیر خوار بچے ہیں۔ عالمی ادارے اب یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ غزہ میں بچے اب کھوئے جاچکے ہیں،اپنی عمر اور قد کے تناسب سے انہیں غذا نہیں مل رہی۔ غزہ کا شمال سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے، قحط تو اب بھی پڑ چکا ہے،مئی میں تو باقاعدہ قحط زدہ علاقہ قرار دینا ہوگا۔ متاثرہ علاقے تک امدادی ٹرکوں کو جانے نہیں دیا جارہا۔

درد مند مسلمان محسوس کررہے ہیں کہ امریکہ اور مغرب کی شہ پر ہی اسرائیل اتنا خود سر ہوسکتا ہے کہ اسے عالمی قوانین کی پروا ہے نہ اسلامی ملکوں کی مزاحمت کا خدشہ،طاقت کے بل بوتے پر انسانیت کو ہلاکتوں سے دوچار کیا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں کی پوری نسل کو تباہ کرنے کے منصوبے پر روزانہ بلا تعطل عملدرآمد ہورہا ہے۔ خبریں بھی نشر ہورہی ہیں۔ دنیا یہ ہولناک مناظر بھی دیکھ رہی ہے۔ خلاؤں کو تسخیر کرنے والے، چاند سے انرجی حاصل کرنے کا خیال رکھنے والے،سمندر کی تہوں میں توانائی تلاش کرنے والے اعلیٰ دماغ انسانیت کی اس تذلیل اور نسل کشی پر خاموش ہیں۔دنیا نظریات سے خالی ہوچکی ہے۔ فرانس میں اب کوئی ژاں پال سارتر نہیں ہے۔ برطانیہ میں برٹرینڈرسل نہیں ہے۔ انسان اب کیا اشرف المخلوقات نہیں رہا ۔ حکمرانوں میں اب کوئی ماؤزے تنگ نہیں ۔ شاہ فیصل نہیں۔ جمال ناصر نہیں۔ معمر قذافی نہیں ۔ بن باللہ نہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو نہیں۔ سوکارنو نہیں۔ خمینی نہیں۔

سلامتی کونسل کو انسانی سلامتی کی فکر نہیں رہی۔ اقوام متحدہ میں 200 سے زیادہ ممالک ایک امریکہ کے سامنے بے بس ہیں۔ پہلے فکر اور بصیرت کا مرکز انسان اور اس کی ضرویات ہوتی تھیں۔ اب عالمی فکر و نظر کا مرکز امریکہ اور اس کی ضروریات ہیں۔ کمیونزم امریکہ کی ناکہ بندی توڑ دیتا تھا۔ امریکہ نے مسلمانوں کو مذہبی حوالے سے ساتھ ملاکر کمیونزم کے قلعے مسمار کردیے، مشرق وسطیٰ بے اماں ہوگیا۔ اس کے بعد امریکہ کے متعصب اداروں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، پینٹاگون، نیٹو سب کا ہدف مسلمان ہیں۔ سیاسی طور پر بے اثر کردیے گئے ہیں، سماجی طور پر ناپسندیدہ، اقتصادی طور پر امریکہ کے محتاج۔پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت، لیکن اب اقتصادی طور پر آئی ایم ایف کے سامنے کشکول لیے کھڑی ہے۔ سیاسی طور پر انتشار اور ادبار کا شکار۔ 25 کروڑ میں سے دس کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے۔ باقی کروڑوں بھی زندگی کی گاڑی کھینچنے کیلئے دوسروں کے محتاج ۔ سعودی عرب کو جدتوں سے ہمکنار کیا جارہا ہے۔ سیاسی اور اقتصادی طور پر اس کا عالمی قیادت کا کوئی عزم نہیں ۔ کسی مسلمان ملک میں بھی عالمی سطح پر کوئی کردار ادا کرنے کی خواہش نظر نہیں آتی ۔ امریکہ نے مغرب کی قیادت کرتے ہوئے مسلمانوں کے دل اور ذہن سے روح محمدؐ نکال دی ہے۔

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا

روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو

فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات

اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو

افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج

ملّا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو

اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو

آہو کو مرغزار ختن سے نکال دو

اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز

ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو

ابلیس کے اس فرمان پر اب شیطان عظیم عمل پیرا ہے۔ اقبال کی بصیرت کو ایک صدی پہلے عالمی بساط پر ان بازیوں کا اندازہ تھا۔ امت مسلمہ ہی نہیں۔ عالم انسانیت کا ضمیر تڑپ رہا ہے۔ ہم ایک دوسرے پر الزامات عائد کرکے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ انسانیت کو اس وقت جس تذلیل، بربریت، خود غرضی، ہلاکت، نیستی کا سامنا ہے۔ یہ ہم سب کی نا اہلی اور خموشی کا شاخسانہ ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ سوچنا چاہئے کہ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کیلئے کیسی دنیا چھوڑ کر جائیں گے۔ انیسویں بیسویں صدی میں ہمارے عالمی مفکرین، سائنسدانوں، سیاسی قائدین، علمائے دین، شعرائے کرام،مدیران،ناول نگاروں نے آفاقی نظریات میں انسانیت کی برتری کا مشاہدہ کیا تھا۔ کمیونزم،پین اسلامزم، وجودیت، مابعد جدیدیت، عالمگیریت۔ وہ سب امریکی مقتدرہ کے سامنے عجز کا شکار کیوں ہوگئے ہیں۔ انسان پستیوں میں گرتا جارہا ہے۔ زر ہر قدر پر غالب آرہا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ