سپریم کورٹ کا بلوچستان کے حلقہ پی بی 50 قلعہ عبداللہ میں دوبارہ انتخابات کا حکم

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ الیکشنز ایکٹ 2017کا فارم 45اور48کیا ہے، کس حوالہ سے ان کاذکر ہے، فارم 45کوکون سی شک ڈیل کرتی ہے ، ہم قانون دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کوئی مارشل لاء کے تحت ریفرنڈم تونہیں تھا کہ 99فیصد سے زائد ووٹ پڑ گئے۔ الیکشن کمیشن کاکام ختم ، الیکشن ٹربیونل بن چکے ہیں۔ہماراکام اتنی باریکیوں میں جانا نہیں، یہ الیکشن کمیشن کاکام ہے، اگر ہم اتنی باریکیوں میں جائیں گے توہمیں 400الیکشن پیٹیشنز سننا پڑیں گی۔اتناتوکام ہم سے نہ کروائیں کہ سارادن ایک ہی کیس چلائیں۔ ہم فوراً الیکشن پیٹیشن لگاتے اورچلاتے ہیں۔ جبکہ سپریم کورٹ نے تمام فریقین کی رضا مندی سے بلوچستان کے حلقہ پی بی 50 قلعہ عبداللہ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا صرف 6 پولنگ سٹیشنر پر دوبارہ ووٹنگ کرانے کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے پورے حلقہ میں دوبارہ انتخابات کروانے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میںجسٹس عرفان سعادت خان اورجسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)کے امیدوار زمرک خان کی جانب سے الیکشن کمیشن کی جانب سے چھ پولنگ اسٹیشوں پر دوبارہ پولنگ کروانے کے حکم کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔درخواست میں پشتونخواملی عوامی پارٹی کے امیدوار میروائظ خان چکزئی اورجمیعت علماء اسلام (ف)کے امیدوارحاجی نوازخان کو فریق بنایا گیا تھا۔ زمرک خان کی جانب سے سینئر وکیل بیرسٹر وسیم سجاد پیش ہوئے جبکہ حاجی نوازخان کی جانب سے سینئر وکیل سینیٹر کامران مرتضیٰ اور میروائظ خان اچکزئی کی جانب سے منیر احمد بھٹی بطور وکیل پیش ہوئے۔

زمرک خان اور حاجی محمد نواز بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ڈی جی لاء محمد ارشداور کنسلٹنٹ لاء فلک شیر پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کتنے پولنگ اسٹیشنوںپر الیکشن ہونا ہے؟ اس پر وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ مخالف امیدوارکی درخواست پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے چھ پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کروانے کا حکم دیا ہے، میروائظ خان اور حاجی محمد نوازدونوںنے درخواست دی تھی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست گزارپھر جیت جائیں گے، چھ پولنگ اسٹیشنوں کا نتیجہ دکھائیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میںغلطی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشنز ایکٹ2017کا فارم 45اور48کیا ہے، کس حوالہ سے ان کاذکر ہے، فارم 45کوکون سی شک ڈیل کرتی ہے، ہم قانون دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس پر وسیم سجاد نے فارم 45کے حوالہ سے شق پڑھ کر سنائی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فارم 48کہاں ہے، لیکن پہلے بتائیں کون سارول ہے۔ وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ مخالف امیدواروں کی جانب سے فارم 45جعلی بنایا گیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کہے کون سافارم 45اصلی ہے،

یہ نہیں لکھا کہ اصلی فارم 45کون سا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم الیکشن کمیشن نہیں، ہمیں اپنے جواب میں دکھائیں کے یہ اصل فارم45ہے، اگر آپ جیتے ہیں توآپ کو فکر کیا ہے، آپ دوبارہ جیت جائوگے، یہ کوئی مارشل لاء کے تحت ریفرنڈم تونہیں تھا کہ 99فیصد سے زائد ووٹ پڑ گئے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست گزارکے وکیل نے آدھی بات کی ہے کہ مخالفین نے جوفارم 45جمع کروائے ویہ صیح نہیں اورآپ نے جو پیش کئے وہ صیح ہیں، الیکشن کمیشن سے فارم 45نکلوالیجئے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے الیکشن ٹربیونل میں کیوں معاملہ نہیں اٹھایا، الیکشن کمیشن کاکام ختم ، الیکشن ٹربیونل بن چکے ہیں۔ وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ ان کے مئوکل حلقہ سے جیتے ہیں اوروہ حلف بھی لے چکے ہیں اوربطوررکن صوبائی اسمبلی کام کررہے ہیں۔ ا س پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے نتائج تو معطل کئے گئے ہیں، اگر حلف لے لیا ہے توپھر یہ تو الیکشن کمیشن کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ جسٹس عرفان سعادت خان نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کے مئوکل کے حلف کی تاریخ کیاہے۔ اس پر وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ 28فروری کو حلف لیا، 13فروری کو میں نوٹیفائی ہوگیا تھا۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہماراکام اتنی باریکیوں میں جانا نہیں، یہ الیکشن کمیشن کاکام ہے، اگر ہم اتنی باریکیوں میں جائیں گے توہمیں 400الیکشن پیٹیشنز سننا پڑیں گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فارم 45اورفارم48میں تضاد آرہا ہے۔ وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ 28مارچ کو چھ پولنگ اسٹیشنوں پر ری پولنگ ہے۔ چیف جسٹس درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ جیتے ہوئے ہیں دوبارہ جیت جائیں گے، دلیرانہ فیصلہ کریں، جو خوش نہ ہواوہ دوبارہ الیکشن ٹربیونل جائے گا۔ وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ فارنزک تجزیہ کے بعد یہ ثابت ہو گا کہ ووٹ اصلی ہیں یا جعلی ہیں۔

چیف جسٹس کا وسیم سجاد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم آپ کو بہت وقت دے چکے ہیں۔ وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ میروائظ نے بھی مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر 90فیصد سے زائد ووت حاصل کئے ہیں۔ چیف جسٹس کا وسیم سجاد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کہہ رہے ہیں سارے لوگوں نے دھاندلی کی، سارے حلقہ میں دوبارہ ووٹنگ کروادیتے ہیں، اتناتوکام ہم سے نہ کروائیں کہ سارادن ایک ہی کیس چلائیں۔ اس دوران چیف جسٹس کا حاجی نوازخان کے وکیل کامران مرتضیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کو بھی تو99فیصد اور100فیصد ووٹ پڑا ہے۔

اس پر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ زیادہ جگہوں پر یہی ہے، سارے انتخاب کو کالعدم قراردے دیں۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اس پر کیا کہتا ہے۔ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن محمد ارشد کا کہنا تھا کہ معاملہ دوبارہ الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جائے ہم دوبارہ دیکھ لیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پورے حلقہ میں انتخاب کروادیتے ہیں۔ وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ میں جیتاہواہوں، مخالف امیدوارآئین کے آرٹیکل 225کے تحت الیکشن ٹربیونل میں نتائج چیلنج کریں، اگر ٹربیونل کہتا ہے تومیں سارے حلقہ میں انتخابات کے لئے تیارہوں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یاہم درخواست خارج کردیتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سارے وکلاء کے مئوکلین موجود ہیں ایک ہی مرتبہ سارے حلقہ میں دوبارہ انتخابات کروالیں،ہم فوراً الیکشن پیٹیشن لگاتے اورچلاتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا اس پر الیکشن کمیشن کو اعتراض ہو گا۔ اس پر ڈی جی لاء محمد ارشد کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو اعتراض نہیں۔ چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ حلقہ کے 125پولنگ اسٹیشنوں پر زمرک خان نے 45ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے، حاجی محمد نوازنے 44,077اورمیروائظ خان اچکزئی نے 35397ووٹ حاصل کیئے۔

فریقین کوپورے حلقہ میں دوبارہ انتخابات کروانے پر اعتراض نہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان قانون کے مطابق دوبارہ انتخابات کاانعقاد کرے، اس مقصد کے لئے دوبارہ شیڈول جاری کرنا ہوگا۔ عدالت نے حلقہ سے کامیاب امیدوار زمرک خان کی کامیابی کانوٹیفیکیشن منسوخ کردیا۔ جبکہ چیف جسٹس کا وسیم سجاد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جس چھری سے آپ کوکاتا ہے وہ دوسروں کو بھی لگے گی۔