اسلام آباد (صباح نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد لانی ہے لیکن اپنے وقت پر ، جب بیساکھیاں ہٹیں گی تو تحریک عدم اعتماد آجائے گی۔ اب ہمیں بیساکھیاں ہٹانا پڑیں گی اور ملک کے عوام کو ایک دفعہ پھرفیصلے کا موقع دینا پڑے گا۔اگرعدم اعتمادکامیاب ہوجاتی ہے تو نئی حکومت بنانے کی ضرورت نہیں، آپ سیدھا الیکشن میں جائیں۔ آج حکومت ایک مصنوعی برتری پر قائم ہے ٹیلی فونوں کے ذریعے ووٹ پورے کئے جاتے ہیں اور جب ٹیلی فونیں آنا بند ہو جائیں گی تو عدم اعتماد خود ہو جائے گی۔
ان خیالات کااظہار شاہد خاقان عباسی نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اپنے وقت پر عدم اعتماد لاناہے جب بیساکھی ہٹے گی توعدم اعتماد آجائے گی ۔ اس حکومت کے نہ اتحا دی ساتھ چلنا چاہتے ہیںنہ اپنے ممبران ، ان کو اپنے سیاست کی حقیقت نظر آگئی کہ اگر اس حکومت کے ساتھ رہیں گے توآئندہ الیکشن میں منتخب نہیں ہوں گے ،حکومت عددی برتری پر چلتی ہے لیکن آج حکومت ایک مصنوعی برتری پر قائم ہے، ٹیلی فونوں کے ذریعے ووٹ پورے کئے جاتے ہیں اور جب ٹیلی فونیں آنا بند ہو جائیں گی تو عدم اعتماد خود ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ہم سمجھتے ہیں کہ جہاں ملک کے حالات ہیں ،اسٹیبلشنمٹ خودبھی اس کو برداشت نہیں کر سکتی کہ ملکی حالات خراب سے خراب تر ہوتے جائیں، ان کے لئے بھی بہتر ہے ملک کے لئے بھی بہترہے کہ وہ اس نظام سے نکلیں اور ملک کے نظام کو آئین کے مطابق چلنے دیں ،غیر آئینی مداخلت نے ملک کے عوام کو تکلیف اور مشکلات کے علاوہ کچھ نہیں دیا، یہ حقیقت سب پر عیاں ہے، اب ہمیں بیساکھیاں ہٹانا پڑیں گی اور ملک کے عوام کو ایک دفعہ پھرفیصلے کا موقع دینا پڑے گا۔جب ملک کے معاملات خراب سے خراب تر ہوتے جائیںگے ، جہاں معیشت تباہ ہو چکی ہے، جہاں مہنگائی عروج پر ہے، وہاں پر ایک پیج کا کوئی مقصد نہیں ہوتا، ایک پیچ عوام کی تکالیف دور کرنے لئے اور ملک کو ترقی دینے کے لئے ہوتا ہے۔ 2018کا الیکشن چوری ہوا،ایک ہائبرڈسیٹ اپ بنا، یہ تجربے ہم کرتے رہتے ہیں اور یہ تجربہ بھی ناکام ہو چکا ہے، سارے معاملے کا ایک ہی حل ہے کہ پاکستان کے عوام کو پہلی دفعہ ایک شفاف الیکشن دیا جائے اوران کے فیصلے کا احترام کیا جائے، اس کے علاوہ ملک کے معاملات کا کوئی اورحل نہیںہے۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ میاں محمد نواز شریف علاج کراکرواپس آئیںگے اور یہ نواز شریف کا فیصلہ ہو سکتا ہے کہ وہ علاج کرائے بغیر واپس آجائیں، ہمارا انہیں یہی مشورہ ہے کہ وہ اپنا علاج کرا کرآئیں کیونکہ صحت سب سے ضروری چیز ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب اپوزیشن میں اکٹھے ہیں اور اگر عدم اعتماد کامیاب ہو گی تو سب کے ووٹوں سے ہی کامیاب ہو گی، کوئی ایک جماعت عدم اعتماد کر نہیں سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ساری اپوزیشن استعفے نہیں دیتی وہ مئوثر نہیں ہوںگے۔ا نہوں نے کہا کہ 27مارچ کو خیبر پختونخوا میں دوسرے مرحلہ کے بلدیاتی انتخابات ہوں گے اور پی ڈی ایم کا لانگ مارچ23مارچ کو ہی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اگرعدم اعتمادکامیاب ہوجاتی ہے تو نئی حکومت بنانے کی ضرورت نہیں، آپ سیدھا الیکشن میں جائیں،نئی حکومت بنے گی تو کچھ وقت ضائع ہو گا اوراس میں کچھ حاصل نہیںہوگا اور ملکی معاملات حل نہیںہو پائیں گے، ایک عارضی سیٹ اپ آئے کوئی نئی حکومت ملکی معاملات کو چلانے کے لئے نہیں آئے گی وہ الیکشن کے بعدآئے گی ۔
انہوں نے کہا کہ آج ملک میں واحد پی ڈی ایم کا پلیٹ فارم ہے جو اقتدار کی بات نہیں کرتا ،اقتدار میں حصہ نہیں مانگتاجو مفاد کی بات نہیںکرتا، جو پاور کی بات نہیں کرتا، ہم تو صرف ایک بات کرتے ہیں ملک کا نظام،آئین کے مطا بق چلنا چاہئے اور ملکی ادارے آئینی حدود میں رہیں، جب تک یہ نہیں ہوگا ملک ترقی نہیں کریگا، یہ ایک تحریک ہے اس میں کوئی سودے بازی نہیں ہو سکتی اور اس معاملہ پر پی ڈی ایم اور پاکستان مسلم لیگ (ن)قائم ہے اور یہی ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کے معاملات کا حل ہے ۔یہ ایک قانونی بات ہے کہ ایک جج کو بلیک میل کر کے اس ملک کے سابق وزیر اعظم کو سزا دلوئی ، دوسرے کیس میں ایک سینئر جج کو کہ گلگت بلتستان کے چیف جج تھے انہوں نے کہا کہ میرے سامنے پاکستان کے چیف جسٹس نے یہ باتیں کی ہیں، یہ انہوں نے بیان حلفی دیا ، اب وہ عدالت میں ہیں اوراگر وہ عدالت میں یہی بیان دے دیں تو وہ اپنی بات پر قائم ہیں، اگر وہ نہ دے سکیں توانہیںبتانا پڑے گا کہ وہ بیان حلفی کیا تھا، اس بات کی حقیقت تک پہنچنا بہت ضروری ہے کہ اس ملک کے جو عدالتی نظام ہے اس کے اندر اتنی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں اور فیصلوں میں آپ کو نظر آتا ہے،کہ اگر ہم اس ملک کے وزیر اعظم کو سپریم کورٹ، ٹرائل کورٹ بن کر اس کو بطور ڈائریکٹر فیس نہ لینے پر اس کو سزادے کر حکومت توڑسکتی ہے اور ملک کے معاملات کو درہم برہم کرسکتی ہے اور اس وزیراعظم کو تا حیات نااہل کرسکتی ہے تو پھر قانون تو برابر نہ ہوا، آج کا جو وزیر اعظم ہے وہ بیرون ملک کمپنیاں چلا رہا ہے اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور اس نے 22اکائونٹس کی کوئی تفصیل نہیں دی اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ دو ججز ہیں جن میںسے ایک سابق چیف جج گلگت بلتستان ہیں اوردوسرے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ہیں، ان میں سے ایک جھوٹ بول رہاہے، یہ عدالت فیصلہ کرے گی کو ن جھوٹ بول رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں 1993سے مائنس سن رہا ہوں، مجھے اس ملک کے صدر غلام اسحاق خان نے خود اپنے منہ سے کہا تھا کہ نوازشریف کی سیاست اب ختم ہو گئی، اب آپ لوگ اپنے فیصلے کریں ، اس کے بعد پرویز مشرف نے بھی پانچ، چھ سال یہی کہانی سنائی ، یہ مائنس فارمولے نہیںچلتے ، مائنس صرف عوام کرسکتے ہیں کوئی اور نہیں کرسکتا ، یہ تاریخ کا سبق ہے۔