روایات اور اقدار ہر قوم کی میراث اور پہچان ہیں۔ کشمیریوں کو جہاں، ایک تاریخی حوالے میں، ایک نا مناسب اضافے کے ساتھ افغان اور کمبوہ اقوام کے ساتھ شمار کیا گیا ہے، وہاں ہی اقوام متحدہ نے انہیں People of Legend کہا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کی ایک اپنی کہانی اور اپنا نغمہ ہے۔ انہیں برف پوش پہاڑوں، خوبصورت وادیوں اور زندگی بخشنے والے پانیوں کی نسبت والے لوگ کہا گیا ہے۔ عالمی سطح پر یہ تعظیم کسی دوسری قوم کو نصیب نہیں ہوئی۔
میں اعلی اقدار اور ادب احترام کی دو مثالیں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے اس بات کا احساس بھی ہے اور خوف بھی کہ ہماری یہ میراث آہستہ آہستہ اور بتدریج معدوم ہوتی جارہی ہے۔ آنے والا وقت بہت برا ہوگا۔
میں اسلام آباد ہوٹل میں ایک تقریب میں شریک تھا۔ تقریب شروع ہوچکی تھی۔ سبھی اپنی اپنی نشست پر بیٹھے تھے، کہ اچانک مرحوم امان اللہ خان داخل ہوئے۔ کوئی نشست خالی نہیں تھی۔ امان صاحب، ادھر ادھر دیکھنے لگے، کہ اچانک ایک نشست پر بیٹھے، ایک کشمیری نے آواز دی۔ امان صاحب، یہاں آجائیں۔ یہ شخص اپنی نشست سے اٹھے اور امان صاحب کے لئے اپنی نشست چھوڑ دی۔
یہ شخصیت مظفرآباد کے خواجہ فاروق احمد تھے۔ خواجہ صاحب نے امان صاحب سے کہا کہ آپ ہمارے بڑے ہیں۔ خواجہ فاروق احمد مظفرآباد کا ایک بڑا اور کشمیر کی سیاست کا معتبر حوالہ ہیں۔ اپنی اقدار کی بھری محفل میں لاج رکھی۔
مجھے لبریشن سیل نے ایک نشست کے لئے مدعو کیا تھا۔ اس وقت اس ادارے کے چئیرمین مرحوم خواجہ ثنااللہ شمیم تھے۔ وہ آزاد کشمیر کی کابینہ کے وزیر رہے ہیں اور مسلم کانفرنس ان کی سیاسی جماعت تھی۔ میں جب تقریب میں پہنچا، تو اہم نشتوں پر قبضہ ہوچکا تھا۔ ثنااللہ شمیم صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ ا اور سٹیج پر لے گئے۔
کوئی کرسی خالی نہیں تھی۔ خواجہ صاحب نے ایک شخصیت کو مخاطب ہوکر کہا، آپ تو مہمان نہیں ہیں۔ کرسی گیلانی صاحب کے لئے خالی کریں۔ یہ ہمارے مہمان ہیں۔ کرسی پر ممبر اسمبلی/وزیر شاہ غلام قادر بیٹھے تھے۔ شاہ صاحب نے بھی خواجہ صاحب کی بات کا اور میرے لئے کرسی کی نشست چھوڑنے کا قطعی برا نہیں مانا۔
اب وقت بدل گیا ہے اور ہماری اقدار بھی بدل گئی ہیں۔ آنکھوں کا لحاظ اور پہچان باقی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری آج کی قیادت کو اسلام آباد سے عام سیاسی کارکن، پتلون گیلی کرنے کی دھمکی دیتا ہے یا اعلانیہ ہمارے لیڈروں کو پہاڑی بکرا کہتا ہے۔
72 سال قبل دنیا کے جن بڑے معروف لوگوں نے ہمیں People of Legend کہا تھا، اگر وہ آج زندہ ہوں اور مظفرآباد کا دورہ کریں، ان کی آنکھیں ہماری حالت زار دیکھ کر کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ ایک وقت تھا کہ ستمبر 1948 کو اقوام متحدہ کے کمیشن میں شامل دنیا کے معروف لوگ ہمارے بڑوں کو ملنے مظفرآباد آئے اور مارچ 1959 میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ایک اعلی سطحی وفد لے کر ہمارے بزرگوں کو ملنے سری نگر آئے۔آخر ہماری
معتبریت کا جنازہ کیوں نکلا؟ ہم نے کسی کو بھی معتبر نہ رہنے دینے کی قسم کھائی ہے۔ یہ قطعی درست اور مناسب نہیں۔