بحران کا سیاسی حل کیا؟ : تحریر سہیل وڑائچ


شاید کسی کو بھی اس حقیقت سے انکار نہ ہو کہ ہلڑ بازی، گالیاں، طعنے، نعرے بازی، جذباتیت اور انتہا پسندی سے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ سیاستدانوں نے اپنا کافی ٹھٹھا اڑوا لیا اب بحرانوں کے قابل عمل اور سب کے لئے قابل قبول سیاسی حل کی طرف آنا چاہیے۔ قومی اسمبلی میں اس وقت سب سے بڑا اختلافی مسئلہ الیکشن دھاندلی کا ہے۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اراکین کا خیال ہے کہ ان کی پارٹی اکثریت سے جیتی ہے اور اس کے ساتھ دھاندلی کرکے ان کی نشستیں کم کردی گئی ہیں۔ تحریک اپنا یہ مقدمہ الیکشن ٹریبونلز لے گئی ہے اور بالآخر یہ معاملہ بھی سپریم کورٹ کی طرف ہی جائے گا۔

سیاست کے ایک حقیر اور ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میری رائے ہے کہ اس معاملے کی انکوائری کے لئے پارلیمان کی کل جماعتی کمیٹی بنائی جائے جس کا سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو بنایا جائے۔ کمیٹی میں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، اور نون لیگ کے ارکان بھی شامل ہوں ۔ مولانا فضل الرحمٰن کی شخصیت پرتحریک انصاف اور نون لیگ کا اتفاق آسانی سے ہو سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن طالبان کی طرف جھکاؤ کے باوجود جمہوریت اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ دھاندلی کے مسئلے کا حل عدالتوں اور انتظامیہ نے نکالا تو ایک نہ ایک فریق کو شکایت ہوگی اور وہ اس فیصلے کو نہیں مانے گا یوں یہ معاملہ کبھی حل نہ ہوگا۔ اگر قومی اسمبلی کل جماعتی کمیٹی کسی نتیجے پر پہنچتی ہے تو اس کا فیصلہ سب کے لئے قابل قبول ہوگا۔

ماضی میں نواز شریف نے پانامہ کیس کی انکوائری پارلیمانی کمیٹی کے پاس لے جانے کی بجائے سپریم کورٹ سے کروانے کو ترجیح دی جس سے جسٹس کھوسہ کو موقع مل گیا کہ انہوں نے جائز ناجائز طریقے سے نواز شریف کو نااہل قرار دینے میں لیڈ لی۔ اب بھی اگر سپریم کورٹ نے دھاندلی کے الزامات مسترد کردیئے تو عمران خان اور تحریک انصاف کے لئے یہ فیصلہ ناقابل قبول ہوگا، گویا پرنالہ وہیں رہےگا۔ہلڑبازی، شور شرابا اور گالی گلوچ جاری رہے گا۔ مہذب قومیں بحرانوں کا حل نکالتی ہیں ہمیں بھی اپنے مسئلوں کا حل نکالنا چاہیے اور پھر سب کو اسے ماننا چاہیے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ آج کا جو بھی نظام چل رہا ہے یہ 1973ء کا آئین جو ساری جماعتوں نے قومی اسمبلی میں بیٹھ کر طے کیا تھا اسی لئے اس آئین پر آج تک سب کا اتفاق ہے۔ اٹھارویں ترمیم پر بھی سب جماعتوں نے اتفاق رائے کیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن بھی قومی اسمبلی میں سب جماعتوں کے اتفاق رائے کے بعد شروع ہوا تھا۔ اس بحران کا سیاسی، جمہوری اور عوامی حل نہ سپریم کورٹ نکال سکتی ہے اور نہ ہی انتظامیہ، اس کا حل صرف اور صرف عوام کے منتخب نمائندوں اور سب جماعتوں کے اراکین اتفاق رائے سے نکال سکتے ہیں۔ میری تجویز ہے کہ قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں سپیکر کل جماعتی کمیٹی کا اعلان کریں، نظام کو چلانا ہے تو وزیر اعظم شہباز شریف اس کی تائید کریں اور لیڈر آف دی اپوزیشن اس سے اتفاق کریں۔ اس اقدام سے اہل سیاست اور منتخب اراکین کی ساکھ بھی بحال ہوگی اور مستقبل کا راستہ بھی نکلے گا۔

پاکستان میں سب کا اتفاق ہےکہ یہ ملک قائد اعظم اور علامہ اقبال کا تحفہ ہے ان دونوں کابھی سیاسی اور جمہوری حل پر ہی اعتماد تھا، قائد اعظم نے ملک کے مستقل آئین پر مدلل تقریر اسمبلی میں بھی کی پھر انہوں نے صرف مسلمانوں نہیں بلکہ ہندوؤں اور اچھوتوں کو بھی اپنی کابینہ میں شامل کرکے یہ پیغام دیا کہ نظام کو سب کو مل کر چلانا ہے۔ علامہ اقبال کا تو فلسفہ ہی یہ ہے کہ پارلیمان کو نہ صرف ملک کے سیاسی فیصلے کرنے چاہئیں بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ اجتہاد جیسے خالصتاً مذہبی فیصلے بھی منتخب نمائندوں کو کرنے چاہئیں۔ گویا بانیاں پاکستان بھی بحرانوں سے نکلنے کا حل پارلیمان کے ذریعے سے ہی سمجھتے تھے ہمیں بھی اسی طرف جانا چاہیے اگر نومنتخب وزیراعظم یہ اقدام لے لیں تو ملک میں یک لخت سکون آ جائے گا اور پھر ہم معاشی استحکام کی طرف بڑھ سکیں گے۔ یہ کمیٹی بناتے وقت سب جماعتوں کے لئے اس کے فیصلے کو ماننے کا پابند بھی بنانا چاہیے ۔ فرض کریں کہ تحریک انصاف کا دھاندلی کا الزام درست نکلتا ہے تو شہباز شریف کو مستعفی ہو کر تحریک انصاف کی حکومت بننے دینی چاہیے اور اگر تحریک انصاف کا الزام غلط نکلتا ہے تو پھر انہیں شہباز شریف کو وزیراعظم تسلیم کرنا ہوگا۔فرض کریں کہ یہ بحران حل نہیں ہوتا تو اسی طرح ہلڑبازی اور شور شرابا جاری رہے گا، نہ قانون سازی ہو سکے گی اور نہ پالیسی سازی۔ایس آئی ایف سی کے فیصلوں کو بھی منتخب نمائندوں کی تائید کی ضرورت ہے اگر یہ تائید نہیں ملتی تو نہ معیشت مستحکم ہوگی اور نہ سیاست۔ اور اگر سیاست مستحکم نہیں ہوتی تو بیرونی سرمایہ کاری کیسے ہوگی؟ ہم پچھلے کئی ماہ سے سن رہے کہ مڈل ایسٹ سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی ابھی تک تو وہاں سے پھوٹی کوڑی نہیں ملی۔ اگر ملک کے اندر معاملات درست نہ ہوئے تو دنیا میں کوئی بھی ہمیں کچھ نہیں دے گا۔ پہلے ہمیں خود کچھ کرکے دکھانا ہوگاتبھی ہمارے دوست ممالک بھی ہماری مدد کے لئے تیار ہوں گے؟

سیاست دانوں کو ہمیشہ سے یہ گلہ رہا ہے کہ مقتدرہ اور عدلیہ کی مداخلت کی وجہ سے نظام چل نہیں پاتا، سیاسی استحکام قائم نہیں ہوتا، اسی لئے معاشی مسائل جنم لیتے ہیں۔ مقتدرہ اور عدلیہ کو اس بار ضبط کرکے سیاسی جماعتوں کو مفاہمت کی ترغیب دینی چاہیے اور اگر پارلیمان کی کل جماعتی کمیٹی دھاندلی کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرتی ہے تو اسے سب کو مان لینا چاہیے۔ مقتدرہ اور عدلیہ کا وجود بھی ریاست کا مرہون منت ہے اگر ملک عدم استحکام اور افراتفری کا شکار رہا تو بالآخر اس کے منفی اثرات ان اداروں تک بھی پہنچیں گے اور پھر ریاست میں وہ توڑ پھوڑ ہوگی کہ الامان والحفیظ. . . .۔

آخر میں عرض ہے کہ ہم نے ماضی میں بہت غلط فیصلے کئے ہیں اب اہل سیاست کو آگے بڑھ کر ایک فیصلہ اپنی محبت اور نفرت کو ایک طرف رکھ کر ملک کے لئے بھی کرنا چاہیے۔ عوام نے ووٹ دے کر اپنا فرض ادا کردیا اب منتخب نمائندوں کا فریضہ ہے کہ وہ ملک کو بحرانوں سے نکالیں۔ نواز شریف سب سے تجربہ کار سیاستدان ہیں وہ اس حوالے سے سبقت لیں ۔ عمران خان ذاتی طور پر بہت مقبول ہیں وہ بھی اس حوالے سے مثبت فیصلے کریں۔ آصف زرداری صدر پاکستان بننے والے ہیں وہ بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن تحریک انصاف اور نون لیگ کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی پر بھی دونوں فریقین کا اعتماد ہے وہ الیکشن دھاندلی کے لئے منصف بنائے جا سکتے ہیں۔ اہل سیاست سیاسی اور جمہوری مستقبل کے لئے فیصلے خود اپنے ہاتھوں میں لیں وگرنہ ان کے فیصلے دوسرے ادارے کریں گے جو ان کے لئے قابل قبول نہیں ہوں گے!!۔

بشکریہ روزنامہ جنگ