لاہور واقعہ! خرابی کی جڑ : تحریر انصار عباسی


لاہور میں ایک خاتون کی ہراسانی کا قابل افسوس واقعہ رونما ہوا۔ اُس کے لباس پر عربی زبان کا کوئی لفظ لکھا تھا جسے بغیر سوچے سمجھے فوراً اسلام سے جوڑ دیا گیا، ہجوم اکٹھا ہو گیاجس میں موجود کچھ لوگ خاتون کی جان لینے کے در پر ہو گئے اور الزام لگا دیا کہ وہ گستاخی کی مرتکب ہوئی ہے۔ خاتون کو ایک دکان کے اندر پناہ دے کر پولیس کو بلایا گیا جس نے ہجوم میں سے بڑی مشکل سے خاتون کو وہاں سے ریسکیو کیا۔ تھانہ پہنچے تو وہاں کی ایک وڈیو سامنے آئی جس میں خاتون پولیس کی موجودگی میں معافی مانگ رہی تھی۔ بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ خاتون کے لباس پر جو لکھا تھا وہ عربی زبان کا ایک عام لفظ تھا جس کا اسلام سے دور دور کا بھی تعلق نہ تھا۔ گویا ایک شخص نے خاتون کے لباس پر لکھے لفظ کو اسلام سے جوڑ کر گستاخانہ عمل قرار دے کر لوگوں کو اشتعال دلایا اور ہجوم نے بھی بغیر پڑھے، بغیر سمجھے، بغیر کسی تحقیق کے ایک خاتون کی زندگی کو شدید خطرہ میں ڈال دیا۔ اگر پولیس اور خاتون اے ایس پی وہاں موجود نہ ہوتے تو نجانے کتنا بڑا سانحہ ہو چکا ہوتا جس کی بنیاد ایک جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں تھی۔ تعجب اس بات پر ہے کہ تھانہ میں خاتون کو ایک جھوٹ کی بنیاد پر کیوں معافی مانگنی پڑی۔نہیں معلوم کہ اس معاملہ پر پولیس کیا تحقیقات کر رہی ہے اور کیا ذمہ داروں کے خلاف کوئی ایکشن ہو گا یا نہیں لیکن سب سے اہم مسئلہ جس پر غور کرنے اور اُس کو درست کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ایسے واقعات کیوں بار بار یہاں جنم لیتے ہیں۔ عموماً ایسے واقعات کو ’’مذہب کے استعمال‘‘ سے جوڑ کر سارا ملبہ کسی ایک طبقہ پر ڈال دیا جاتا ہے۔ حالانکہ نہ اسلام یہ سکھاتا ہے نہ ہی مسلمان کا ایسا رویہ ہونا چاہئے۔ اصل خرابی پر توجہ نہیں دی جاتی اور وہ خرابی ریاست کی سطح پر ہے۔ جب ریاست اسلام،اسلامی تعلیمات اور عوام کو اسلام پڑھانے کی ذمہ داری سے مکمل پہلو تہی کرے گی تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ ایک طبقہ کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ ریاست کو سیکولر ہونا چاہئے اور مذہب کا معاملہ ہر فرد پر چھوڑ دینا چاہئے۔ ہمارا آئین کہتا ہے کہ پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کو نہ صرف اسلام کی تعلیم دی جائے بلکہ اُن کو مکمل اسلامی ماحول بھی فراہم کیا جائے، جہاں وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں۔ آئین کی ان شقوں پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ عملی طور پر ہماری ریاست نے اسلام کو پڑھانے اور اسلام کو سکھانے کا کام آوٹ سورس کر دیا ہے جس کی وجہ سے یہاں اسلام کے نام پر ایسا بہت کچھ کیا جاتا ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام انسانی زندگی کی حرمت پر بہت زور دیتا ہے لیکن ہمارے معاشرہ میں انسانی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسلام خواتین، بچوں، اقلیتوں، معاشرےکے ہر فرد کے حقوق کے بارے میں جو تعلیمات دیتا ہے کیا ہمارا معاشرہ اُس کی عکاسی کرتا ہے؟ عدل و انصاف کے جو اصول ہمارا دین مقرر کرتا ہے کیا ہمارا اُس سے دور دور کا بھی واستہ ہے؟لاہور جیسے واقعات کی بنا پر مذہب کو نشانہ بنانے کی بجائے اصل خرابی اور اُس کی جڑ کو پکڑیں۔ آئین پاکستان کی روح کے مطابق ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے، افراد کو اسلام پڑھائے، اسلامی تعلیمات اور اسلامی ماحول کی فراہمی کو یقینی بنائے، معاشرےکے ہر فرد کو انسانی جان و مال کی حرمت کے بارے میں بتائے اور عمل کرنا سکھائے، اُنہیںخواتین، بچوں، اقلیتوں، ماں باپ، میاں بیوی کے متعلق حقوق و فرائض پر عمل کرنے کی تلقین کرے، جھوٹ، انتشار، اشتعال انگیزی، فتنہ سازی جیسے معاملات کی روک تھام کیلئے تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ جزا و سزا کا نظام لاگو کرے۔ ریاست اگر اپنی اس بنیادی ذمہ داری سے پہلو تہی کرتی رہے گی تو ہمارے ہاں خرابیاں بڑھتی رہیں گی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ