اشتعال کے یرغمالی پناہ مانگتے ہیں : تحریر وجاہت مسعود


حالیہ انتخابات کے دوران خیبر پختونخوا میں طالبان عناصر کا کردار ایک طرف، 8فروری 2024ء کے بعد تین اہم واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ان واقعات کا زیر خط پیغام ایک دوسرے سے جڑا ہے۔ چیف جسٹس محترم قاضی فائز عیسیٰ بوجوہ پاکستان تحریک انصاف کے نشانے پہ ہیں۔ حسن معاویہ نامی شہری نے 2022ء میں کسی کو نامزد کئے بغیر درخواست دائر کی کہ 2019میں حفظ قرآن کے احمدی طالب علموں میں ایک کتاب تقسیم کی گئی تھی۔ چنانچہ ذمہ داران کے خلاف قانون تعزیرات کی دفعہ 295 بی اور 298سی کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔ 6فروری 2024ء کو محترم چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اس بنیاد پر مبارک احمد ثانی نامی شہری کی درخواست منظور کر لی کہ ان سے منسوب کردہ دفعات ایف آئی آر میں بیان کردہ الزامات سے تعلق نہیں رکھتیں نیز یہ کہ قانون تعزیرات کے مطابق ملزم مذکور ضمانت کے مستحق ہیں۔ محترم چیف جسٹس سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ 7 فروری 2002ء کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کر دیا گیا۔ ایک اخبار نے یہ خبر 19 فروری کو شائع کی۔ ترجمان سپریم کورٹ نے اس فیصلے کی وضاحت جاری کی تاہم پنجاب حکومت نے اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کر دی۔ صاحبان نظر جانتے ہیں کہ اس تنازع کا محرک محترم چیف جسٹس سپریم کورٹ کو مذہبی دباؤ میں لانا تھا۔ پاکستان میں نہ تو کوئی گورنر (سلمان تاثیر) انصاف طلب کرنے کا مجاز ٹھہرا ہے اور نہ کوئی منصف (عارف اقبال بھٹی) قانون کے مطابق فیصلہ دینے کا حق رکھتا ہے۔ زیر سماعت مقدمہ کا ملزم منظور بھٹی احاطہ عدالت میں قتل کیا جاتا ہے۔ زیر سماعت مقدمہ کا وکیل دفاع راشد رحمن اپنے چیمبر میں قتل کیا جاتا ہے۔ طالب علم خطیب حسین اپنے استاد خالد حمید کو اہانت مذہب کے الزام میں قتل کر دیتا ہے۔ خوشاب کا بینک منیجر اپنے سکیورٹی گارڈ کے مبینہ اشتعال کا نشانہ بنتا ہے۔ سیالکوٹ میں سری لنکا کے صنعتی منتظم کو مشتعل ہجوم قتل کرتا ہے۔ شمالی پاکستان میں چینی انجینئر بمشکل بازیاب کیا جاتا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک نامزد آرمی چیف پر انگشت نمائی ہوتی ہے، وفاقی وزیر قانون کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ گویا نہ کوئی ملزم محفوظ ہے اور نہ وکیل دفاع۔ کوئی استاد محفوظ ہے اور نہ کوئی اعلیٰ ریاستی منصب دار۔

25 فروری کی سہ پہر لاہور کے اچھرہ بازار میں شاپنگ کرنے والی ایک خاتون نے شالک ریاض نامی برانڈ کا ایک عام لباس پہن لکھا تھا جس پر عربی رسم الخط میں مصورانہ خطاطی کی گئی تھی۔ اس تحریر کا کوئی مذہبی مفہوم ہے اور نہ کوئی تقدیس۔ تاہم ایک مشتعل ہجوم نے خاتون کو گھیرے میں لے کر الزام لگایا کہ خاتون نے قرآنی آیات والا لباس پہن رکھا ہے۔ اطلاع ملنے پر خاتون اے ایس پی شہر بانو نقوی نے محصور خاتون کو اپنی تحویل میں لے کر پولیس اسٹیشن پہنچایا۔ نام نہاد مشتعل ہجوم کے نعروں سے پس پشت کارفرما انتہا پسند مذہبی تنظیم کی شناخت واضح تھی۔ پولیس اسٹیشن میں مذہبی پیشواؤں پر شواہد سے واضح کیا گیا کہ مذکورہ خاتون کے لباس کا کوئی مذہبی حوالہ نہیں۔ تاہم نام نہاد مذہبی پیشواؤں نے زیر حراست خاتون سے معافی منگوائی۔ سوال یہ ہے کہ اگر خاتون کے درپے افراد نے غلط الزام عائد کیا تھا تو خاتون نے کس بات کی معافی مانگی۔ معافی تو غلط فہمی کا شکار مذہبی پیشواؤ ں کو مانگنا چاہیے تھی۔ بے قصور خاتون پر حملہ آور ہونے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی ہونا چاہیے تھی۔ تحریک لبیک کے بیان سے صاف ظاہر ہے کہ مذکورہ مذہبی تنظیم عام شہریوں کو ہراساں کر کے اپنی سیاسی طاقت بڑھانا چاہتی ہے جب کہ سیاسی قیادت اور انتظامیہ کا معذرت خواہانہ رویہ عوام میں ایسے غیر ذمہ دارانہ رویوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے۔ایک تیسرا منظر دیکھئے۔ محترمہ مریم نواز شریف پنجاب اسمبلی کے371رکنی ایوان میں 220ارکان کا اعتماد لے کر وزیراعلیٰ منتخب ہوتی ہیں۔ اس پر دسمبر 1979ء میں پیدا ہونے والا ایک مذہبی پیشوا ہشام الٰہی ظہیر عورت کی حکمرانی کے خلاف مجمع عام میں اشتعال انگیز تقریر کرتا ہے۔ ایسے ہی غیر ذمہ دارانہ اعلانات کے نتیجے میں گوجرانوالہ میں پنجاب کی صوبائی وزیر ظل ہما فروری 2007ء کو ایک مخبوط الحواس شخص کے ہاتھوں قتل ہوئی تھیں۔ کیا ہشام الٰہی ظہیر کی تقریر پر محترمہ بے نظیر شہید کے سیاسی اتحادی مولانا فضل الرحمن نے کوئی رائے دی؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر مفتی تقی عثمانی کا ردعمل ذومعنی ہے۔ لاہور کی پولیس افسر کو سند تحسین ملنے سے اس خاتون شہری کی اذیت کا مداوا کیسے ہو گا جسے ناکردہ گناہ کی پاداش میں سرعام ذلیل ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس کی جان بھی خطرے میں ڈالی گئی۔ مقام فکر ہے کہ ہم نے اپنے ملک میں سیاسی اور معاشی مفادات کے لیے عام شہریوں کو نام نہاد مشتعل، ناخواندہ اور گمراہ ذہنوں کے لیے آسان شکار بنا دیا ہے۔

نومبر 2020ء میں ایک انتہا پسند مذہبی تحریک کے نام نہاد دھرنے میں سات فرض شناس پولیس اہلکار قتل ہوئے۔ اس جرم کے الزام میں کسی ملزم کے خلاف قانونی کارروائی ہوئی؟ زمینی حقائق کے پیش نظر محترمہ شہر بانو کی کارروائی قابل تحسین ہے لیکن انہوں نے اپنا فرض منصبی حرف قانون کے مطابق ادا نہیں کیا۔ پولیس افسر جانتے ہیں کہ ان کے پیچھے نہ تو کوئی سیاسی جماعت کھڑی ہو گی اور نہ ریاستی قوتیں، تو وہ قانون کی پاسداری کیسے کریں گے۔ سری لنکا کے فیکٹری منیجر کو سرعام مشتعل ہجوم کے سامنے قتل ہوتے دیکھ کے پولیس اہلکار اپنا حقیقی فرض منصبی کیسے ادا کریں گے؟ نو برس تک بلاجواز قید بھگتنے والی ایک پاکستانی خاتون کو جھوٹے الزام سے بری کرنے پر اگر عدالت عظمیٰ کا سربراہ خوفزدہ ہو کر منہ چھپاتا پھرے گا تو اس ملک کے شہریوں کو نام نہاد مذہبی پیشواؤں کے گمراہ کن اشتعال سے کون تحفظ دے گا۔ پے در پے سامنے آنے والے یہ سوالات نومنتخب سیاسی قیادت کا امتحان ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ