صدر عارف علوی نے تا دم تحریر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی سمری پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ چار دن سے سمری ان کی میز پر موجود ہے۔ لیکن وہ نہ تو دستخط کر رہے ہیں اور نہ ہی اجلاس بلانے سے انکار کر رہے ہیں۔
ایوان صدر اور صدر مملکت کی جانب سے ایک پراسرار خاموشی ہے۔ تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ صدر مملکت اس لیے قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلا رہے کیونکہ تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا اور صدر مملکت سمجھتے ہیں کہ ایوان ابھی نامکمل ہے اس لیے اجلاس نہیں بلا رہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ صدر مملکت کے پاس جب سمری پہنچ گئی ہے تو انھیں اس کو التوا میں نہیں رکھنا چاہیے۔ ان کا جو بھی موقف ہے وہ قوم کے سامنے آنا چاہیے۔ ملک کی عدلیہ آزاد ہے۔
ان کے موقف پر عدلیہ سے قانون اور آئین کی تشریح بھی لی جا سکتی ہے۔ لیکن خاموشی کوئی آئینی حل نہیں ہے۔ آپ انکار کرنا چاہتے ہیں تو واضح انکار کریں۔ لکھ کر انکار کریں۔ اپنا موقف لکھیں تا کہ یہ فیصلہ ہو سکے کہ ان کا موقف درست ہے یا غلط۔ ان کا اس طرح سمری روکنا کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔
صدر عارف علوی کی مدت صدارت اب ختم ہونے کو ہے۔ نئے صدر کا انتخاب ہونے کو ہے۔ اس کے لیے شیڈول جلد سامنے آنے والا ہے۔ ویسے تو صدر عارف علوی کی مدت صدارت کب کی ختم ہو چکی ہے۔ وہ چاہتے تو اپنی مدت ختم ہونے کے بعد آرام سے گھر جا سکتے تھے۔ ان کا ایک اصولی موقف یہ بھی ہو سکتا تھا کہ میری مدت ختم ہو گئی ہے میں گھر جا رہا ہوں۔
میں اپنی مدت سے ایک دن زیادہ بھی صدر رہنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ لیکن انھوں نے ایسا کوئی اصولی موقف نہیں اپنایا۔بلکہ وہ منصب صدارت پر آج تک براجمان ہیں۔ وہ آج ایک توسیعی مدت کی بنیاد پر صدر ہیں۔ کیونکہ آئین میں لکھا ہے کہ جب تک نئے صدر کا انتخاب نہ ہو جائے تب تک پرانے صدر بطور صدر مملکت کام جاری رکھیں گے۔ وہ اس آئینی شق کی بنیاد پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اسی آئینی شق کے تحت نگران حکومتوں نے بھی کام جاری رکھا ہوا ہے۔ کیونکہ آئین میں لکھا ہوا ہے کہ جب تک نئی حکومت نہ آجائے تب تک پرانی حکومت کام جاری رکھے گی۔ اسی لیے اگر بروقت انتخابات نہ ہوں تو نگران حکومتیں کام جاری رکھتی ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے دوستوں کے لیے صدر کا کام جاری رکھنا آئینی ہے مگر نگران حکومتوں کا کام جاری رکھنا غیر آئینی ہے۔
اگر صدر مملکت کے دور صدارت میں آئین کی کوئی خلاف ورزی نہ ہوئی ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ انھوں نے سارے دور میں آئین کی پاسداری کی ہے۔ ہم ان سے آئین کی خلاف ورزی کی کیسے توقع کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ انھوں نے تحریک انصاف کی سیاسی سہولت کاری کے لیے ایک نہیں بار بار آئین توڑا۔ عدم اعتماد کے موقع پر اسمبلیاں توڑ کر آئین توڑا۔
اس کے علاوہ بھی کئی مواقع پر انھوں نے تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کی سیاسی سہولت کاری کے لیے آئین توڑنے سے گریز نہیں کیا۔ جب تک تحریک انصاف کی حکومت رہی ایوان صدر میں ایک آرڈیننس فیکٹری بھی جاری رہی۔ انھیں روزانہ آرڈیننس جاری کرنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس لیے میں ان کو آئین اور قانون کی پاسداری کرنے والا صدر نہیں سمجھتا۔
و ہ ایک سیاسی صدر ہیں۔ان کی سیاسی ہمدردیاں تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے ایوان صدر میں بیٹھ کر جس حد تک ممکن تھا تحریک انصاف کی سیاست کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس حد تک تحریک انصاف کی سیاسی سہولت کاری کے باوجود تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف ان سے خوش نہیں ہیں۔
آج وہ تحریک انصاف کے لیے قومی اجلاس نہیں بلا رہے ہیں۔ لیکن کل جب وہ فارغ ہو کر گھر جائیں گے تو ان کے خلاف تحریک انصاف کے پاس ایک لمبی چارج شیٹ موجود ہوگی۔ لیکن شاید قومی اسمبلی کا اجلاس روک کر وہ اپنی چارج شیٹ میں کچھ کمی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ صدر مملکت جانے سے پہلے اپنے لیے محفوظ راستے کے لیے بار گین کر رہے ہیں۔ صدر مملکت کو اندازہ ہے کہ ایوان صدر سے نکلنے کے بعد ان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا۔ ایک تقریب میں انھوں نے کہا بھی ہے کہ اگر وہ صدر نہ ہوتے تو اب تک جیل میں ہوتے۔ان کے جیل جانے میں سب سے بڑی رکاوٹ صدارتی استثنا ہے۔
صدر مملکت کو پاکستان کے آئین کے تحت ایک خاص استثنا حاصل ہے۔ وہ کوئی بھی جرم کر دیں تب بھی ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو سکتی۔
وہ آئین بھی توڑ دیں تب بھی آئین ان کے خلاف کارروائی کرنے سے روکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب وہ صدر نہیں رہیں گے تو انھیں اپنے سب جرائم کا حساب دینا ہوگا، پھر استثنا ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے جناب صدر کو اندازہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ جب وہ صدر نہ رہیں گے تو ان کے خلاف سارے کیس کھل جائیں گے اور ان کے لیے مشکلات شروع ہو جائیں گی۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ان کی اگلی منزل بھی جیل ہی ہے۔ صرف ایوان صدارت نے انھیں بچایا ہوا ہے اسی لیے رائے یہی ہے کہ وہ ایک محفوظ راستے کے لیے بارگین کر رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا انھیں محفوظ راستہ مل جائے گا۔ مجھے نہیں لگتا۔ ان کی جانب سے سمری روکے جانے کے بعد ان سے ڈیل کرنے کے بجائے سیاسی محاذ آرائی شروع ہو گئی ہے۔ ایک رائے تو یہ بھی سامنے آئی ہے کہ اگر وہ دستخط نہ کریں تب بھی اجلاس 29فروری کو ہو جائے گا۔ صدر مملکت صرف ایک خاص حد تک روک سکتے ہیں۔
وہ مکمل طورپر روکنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ایسا نہیں ہے کہ اگر صدر کبھی سمری پر دستخط نہ کریں تو اجلاس کبھی نہیں ہوگا۔ صدر کے پاس ایک خاص مدت تک روکنے کا اختیار ہے جو ایک بے معنی اختیار ہے۔ جیسے وہ دیگر سمریوں کو ایک خاص مدت تک روک سکتے ہیں، پھرواپس بھیج سکتے ہیں اور دوبارہ منظوری پر ان کا روکنے کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ صدر مملکت نے لڑائی شروع کر دی ہے۔
وہ خاموشی سے گھر جا سکتے تھے۔ تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف ان سے ناراض ہیں، علیمہ خان ان کے خلاف آن ریکارڈ بیان دے چکی ہیں۔ جس میں بانی تحریک انصاف کی ان سے ناراضگی کا برملا اظہار کیا گیا تھا۔ پھر ان کے بیٹے کو ٹکٹ بھی نہیں دیا گیا تھا۔
اس لیے یہ سمری روک کر ان کی واپسی ممکن نہیں۔ بالخصوص سائفر کے لیے جو خصوصی قانون سازی کی گئی تھی تب عارف علوی نے تحریک انصاف کے تناظر میں خاموشی دکھائی۔ جب ان کا موقف تھا کہ انھوں نے بل دستخط نہیں کیے تو پھر انھیں قانون کی منسوخی کے لیے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کرنا چاہیے تھا، ایک ٹوئیٹ کافی نہیں تھا۔
اس لیے شاید صدر مملکت نام تحریک انصاف کا لے رہے ہیں، لیکن مانگ اپنے لیے ہی رہے ہیں، جو نہیں مل رہا۔ شاید کھیل اور موقع دونوں ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس