سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکے ٹیلی فون،بیان حلفی لیک ہونے کی انکوائری کرائی جائے


اسلام آباد(عابدعلی آرائیں) توہین عدالت کیس میں سابق جج گلگت بلتستان ایپلٹ کورٹ رانا محمد شمیم نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکے ٹیلی فون کے حوالے سے بیان حلفی اور خفیہ بیان حلفی کی اشاعت کی انکوائری کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائرکردی۔8صفحات پر مشتمل درخواست میں رانا شمیم نے اپنے ایڈریس کے بیان حلفی سمیت خود کو ملنے والے دو دعوت نامے بھی شامل کیے ہیں۔

درخواست کے پیراگراف نمبر ایک میں رانا شمیم نے کہا ہے کہ عدالت 4 دسمبر 2021ء کو جمع کرائے گئے میرے تحریری جواب کو بھی اس درخواست کا لازمی حصہ سمجھے۔

پیرا گراف نمبر 2 میں لکھا گیا ہے کہ اس عدالت کے سامنے پہلے بھی موقف اپنایا تھا کہ انہوں نے 10نومبر2021ء کو اپنا بیان حلفی لکھوا کر اسے سیل کردیا تھا اور اس بیان حلفی کے مندرجات کسی کے ساتھ شیئر نہیں کیے تھے ۔رانا شمیم نے اپنا بیان حلفی اپنے نواسے کے حوالے کیا جو لندن میں زیر تعلیم ہے۔

پیراگراف نمبر 3 میں رانا شمیم نے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ پاک امریکہ لائرز برائے قانونی حقوق کی طرف سے منعقد کیے گئے سمپوزیم میں شرکت کیلئے امریکہ گئے اس تقریب میں انہیں بطور چیف گیسٹ(مہمان خصوصی) مدعو کیا گیا تھا۔ یہ تقریب 30اکتوبر2021 کو ہوئی۔ اس تقریب کے دعوت نامے کی کاپی بھی درخواست کے ساتھ منسلک ہے۔

پیراگراف نمبر 4 میں رانا شمیم نے لکھا ہے کہ انہوں نے 17نومبر 2021 کو امریکہ سے واپس آنا تھا تاہم انہیں 6نومبر کو بدقسمت اور غمگین کردینے والی کال موصول ہوئی کہ ان کے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے اس لئے رانا شمیم نے اپنا ٹرپ مختصر کیا اور 7نومبر کو امریکہ سے پاکستان کیلئے روانہ ہوگئے۔
پیراگراف نمبر 5 میں رانا شمیم نے لکھا ہے کہ انہیں پاکستان کیلئے براہ راست فلائٹ نہیں ملی انہیں لندن کے راستے واپس آنا پڑا وہ 8 نومبر2021ء کو لندن پہنچے اور 10نومبر کو وہ دبئی کے راستے کراچی آئے۔

پیراگراف نمبر 6 میں لکھا گیا ہے کہ 6نومبر کو ان کے بھائی کی موت سے پہلے رانا شمیم غم میں مبتلا تھے کیونکہ ان کے خاندان کے 4 افراد گزشتہ چار ماہ کے اندر انتقال کرگئے تھے۔ جن میں ان کی بھابھی کا انتقال اگست میں ہوا تھا۔ رانا شمیم کی اہلیہ کا انتقال 4جون 2021 کو ہوا۔ ان کی سالی کا انتقال31 مارچ 2021ء کو ہوا جبکہ ان کے چچا کا انتقال 5جولائی 2021کو ہوا۔

پیراگراف نمبر 7میں لکھا گیا ہے کہ رانا شمیم قریبی رشتہ داروں کے انتقال کی وجہ سے سخت ذہنی تنائو کا شکار تھے۔ اس سنجیدہ صورتحال میں انہوں نے یہ محسوس کیا کہ ان کے علم میں جو واقعہ ہے وہ اس کو جتنا جلدی ہوسکے تحریر کردیں کیونکہ ان کی مرحوم اہلیہ نے اس خواہش کا اظہارکیا تھا اس لئے انہوں نے لندن میں اپنے ٹرانزٹ قیام کے دوران بیان حلفی لکھوانا مناسب سمجھا۔

پیراگراف نمبر 8 میں لکھا گیا ہے کہ رانا شمیم نے وہ واقعہ سپریم جوڈیشل کے سامنے اس لئے افشا نہیں کیا کیونکہ اس وقت اس کیس میں ایک پارٹی سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ تھے اور رانا شمیم اس واقعہ کے ایک ماہ بعد عہدے سے ریٹائر ہوگئے۔ مزید یہ کہ یہ واقعہ پاکستان سے باہر ہوا تھا۔

پیراگراف نمبر 9میں لکھا گیا ہے کہ رانا شمیم کے بیان حلفی میں جو کچھ بھی لکھا گیا ہے وہ ان باتوں پر مبنی ہے جو انہوں نے سنیں۔ رانا شمیم اپنی زندگی میں یہ حقائق کسی کے سامنے نہیں لانا چاہتے تھے لیکن انہوں نے اپنی مرحوم اہلیہ سے ان کی زندگی میں وعدہ کیا تھا کہ وہ بیان حلفی لکھوائیں گے۔ اپنے خاندان کے متعدد افراد کی اموات پر ذہنی تنائو کے ماحول نے انہیں مجبور کیا کہ وہ ایک بیان حلفی کی شکل میں سارا کچھ تحریر کروائیں لیکن انہوں نے کسی کے سامنے یہ بیان حلفی ظاہر نہیں کیا۔

پیراگراف نمبر 10 میں لکھا گیا ہے کہ یہ انصاف میں شفافیت کے طے شدہ قوانین کے خلاف ہوگا کہ انہیں توہین عدالت کے فوجداری معاملے میں بغیر تحقیقات کے قصوروار ٹھہرایا جائے ۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ مکمل طورپر نا انصافی ہوگی کہ کوئی معاملہ ثابت ہوئے بغیر رانا شمیم کے خلاف ایڈورس ایکشن لیا جائے اور رانا شمیم کو بیان حلفی شائع کرانے کا ذمہ دار ٹھہرا دیا جائے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ دیگر فریقین سے اس بات کی انکوائری ہونی چاہیے کہ بیان حلفی کس طرح ان کے ہاتھ میں آیا۔ یہ انکوائری کیے بغیر رانا شمیم کو قصوروار ٹھہرا کر سزا دینا قانونی عمل کے خلاف ہوگا اور یہ نامناسب ہوگا کہ باقی فریقین کو چھوڑ کر رانا شمیم کو سزا دی جائے۔

پیراگراف نمبر 11میں لکھا گیا ہے کہ یہ امر بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ بیان حلفی میں جو حقائق دئیے گئے ہیں ان کی بھی انکوائری کے ذریعے تصدیق کی جانی چاہیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے بھی جوابی بیان حلفی لے کر انکوائری میں شامل کیا جائے اور رانا شمیم کو اس پر جرح کا موقع دیا جائے۔
پیراگراف نمبر 12میں لکھا گیا ہے کہ اگر رانا شمیم کے بیان حلفی میں دئیے گئے حقائق درست ثابت ہوتے ہیں تو ان کے خلاف مقدمہ ختم ہو جائے گا اور یہ سب کچھ صرف شفاف انکوائری سے ہی ممکن ہوسکتا ہے ۔

پیراگراف نمبر 13 میں لکھا گیا ہے کہ ان کے خلاف توہین عدالت کا کیس اس وقت تک نہیں بنتا جب تک یہ ثابت نہ کرلیا جائے کہ رانا شمیم نے بیان حلفی میں بتائے گئے حقائق شائع کروائے اور جو حقائق بیان حلفی میں دئیے گئے ہیں وہ سچ ہیں یا جھوٹ اس وقت تک ان کے خلاف کیس نہیں بنایا جاسکتا یہ سب کچھ صرف آزاد اور غیر جانبدارانہ انکوائری سے ہی ممکن ہے۔

پیراگراف نمبر 14میں لکھا گیا ہے کہ رانا شمیم کا یہ ارادہ نہیں تھا کہ یہ معاملہ عوام تک پہنچے اسی وجہ سے انہوں نے اسے خفیہ رکھا۔ انہوں نے صرف اپنی اہلیہ کی خواہش کیلئے یہ بیان قلمبند کروایا تھا اور مخصوص حالات میں یہ بیان انہوں نے بیرون ملک ریکارڈ کروایا۔ رانا شمیم اس عدالت کے فاضل ججز کا انتہائی احترام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس عدالت کے ججز آزادانہ طورپر انصاف کی فراہمی میں مصروف ہیں۔ رانا شمیم ایک بار پھر کہتے ہیں کہ وہ خود ایک جج رہے ہیں ان کی نظر میں پوری عدلیہ بالخصوص اس عدالت کی بہت عزت ہے رانا شمیم ایک دفعہ پھر اس واقعہ پر شرمندہ ہیں اور اس ندامت کا اظہار انہوں نے اس عدالت کے سامنے پہلے بھی اپنے بیان میں کیا ہے اس لئے عدالت سے درخواست ہے کہ ان پرفرد جرم عائد کرنے کی بجائے حقائق کو سامنے لانے کیلئے انکوائری شروع کی جائے تاکہ اس کیس کو حقائق کی روشنی میں نمٹایا جاسکے۔