جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے دورہ افغانستان کے حوالے سے کافی گفتگو جاری ہے۔ ان کے مخالفین کا موقف ہے کہ یہ دورہ مکمل طور پر ناکام رہا اور انھیں ہائی پروٹوکول بھی نہیں ملا جب کہ دوسرا موقف یہ ہے کہ اس دورے سے کافی برف پگھلی ہے، جس کے نتائج سامنے آئندہ دنوں میں آئیں گے۔
مولانا فضل الرحمن کے مخالفین کہہ رہے ہیں کہ مولانا صرف اپنے لیے امن مانگنے گئے تھے، انھوں نے افغان حکام سے یہ درخواست کی ہے کہ کم از کم ٹی ٹی پی کو یہ کہہ دیا جائے کہ وہ جے یو آئی (ف) کو انتخابات کے دوران نشانہ نہ بنائے لیکن افغان طالبان نے جوابا کہا ہے کہ ہم انھیں کچھ نہیں کہہ سکتے، آپ خود بات کر لیں۔
ان تمام باتوں کے باوجود بہر حال مولانا کا دورہ کابل ایک اہم موقع پر ہوا ہے۔ جہاں تک طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ سے ملاقات نہ ہونے کی بات ہے تو پاکستان کے اعلی سطح کے وفد بھی افغانستان گئے ہیں،ان کی بھی ملا ہیبت اللہ سے ملاقات نہیں ہوئی۔
ملا ہیبت اللہ افغانستان کا دورہ کرنے والے کسی اور اہم مہمان یا ڈپلومیٹ سے بھی نہیں ملے؟ ایسی کوئی بھی ملاقات ریکارڈ پر نہیں ہے۔ یہ ضرور ریکارڈ پر ہے کہ ایک سال قبل قطر کے وزیراعظم ملاہیبت اللہ سے کسی نا معلوم مقام پر ملے تھے۔
بہر حال یہاں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان فورا تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں فی الحال ایسا ممکن نہیں ہے۔ کیا پاکستان غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں کو واپس بھیجنے کا عمل روک سکتا ہے؟ میں سمجھتا ہوں، پاکستان میں کوئی بھی حکومت آجائے، یہ عمل نہیں رک سکتا۔
یہ بات درست ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے افغانستان میں یہ پوزیشن لی ہے کہ وہ اور ان کی جماعت افغانیوں کو واپس بھیجنے کے حق میں نہیں ہیں۔ لیکن یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ مولانا کے پاس ایسا کوئی مینڈیٹ نہیں تھا کہ وہ کابل میں یہ اعلان کر دیتے کہ اب پاکستان غیر قانونی طورپر مقیم افغانیوں کو واپس نہیں بھیجے گا۔ ویسے بھی اگر پاکستان نے اس قسم کا کوئی اعلان کرنا ہوتا تو پاکستان سرکاری طور پر کسی باضابطہ معاہدے کے ساتھ ایسا اعلان خود کرتا۔
ایک اور اہم پوائنٹ یہ ہے کہ کیا موجودہ حالات میں پاکستان افغانستان کو ٹرانزٹ ٹریڈ میں بند کی گئیں سہولیات واپس دینے کی پوزیشن میں ہے؟ پاکستان نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت کچھ پابندیاں لگائی ہیں، یہ پابندیاں افغانستان کو پسند نہیں، افغانستان کے تاجروں کو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں بے جا رعایتوں اور مراعات کی عادت پڑچکی ہے، اب وہ ان رعایتوں اور مراعات کو پاکستان کی جانب سے خصوصی سہولت، رعایت اور نرمی نہیں سمجھتے بلکہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔
پاکستان کی مارکیٹ سے ڈالر خریدنا اور بلا روک ٹوک افغانستان لے جانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ٹرانزٹ ٹریڈ کا مال بغیر کوئی ٹیکس دیے پاکستان واپس لا کر یہاں بیچنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ٹرانزٹ ٹرید کے ساتھ اسمگلنگ کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اب یہ سب کچھ اگر مکمل طو رپر بند نہیں ہے تو سختی ضرور ہے۔ ناجائز دولت کمانے کا دھندہ سست ہے، اب اسمگلنگ اور ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں ناجائز کاروبار کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔
پاکستان نے کرنسی ٹریڈ پر کنٹرول شروع کیا ہے۔ پشاور کی کرنسی مارکیٹ بند ہی کر دی گئی ہے کیونکہ یہ ڈالر کی غیر قانونی خریداری اور افغاستان اسمگلنگ کا بڑا مرکز بن چکا تھا، اب ڈالر کی خریدو فروخت اتنی آسان نہیں رہی۔اسٹیٹ بینک نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی ایل سی کھولنے کے لیے نئی اور قدرے سخت شرائط رکھی ہیں۔
یہ سب افغانستان کی حکومت اور افغان تاجروں کو پسند نہیں ہے، وہ پاکستان کے ان اقدامات کو اپنے خلاف اقدمات سمجھ رہے ہیں، وہ یہ نہیں سمجھ رہے کہ پاکستان کو ان اقدامات کا قانونی حق حاصل ہے، پہلے پاکستان انھیں ان معاملات میں غیرمعمولی سہولتیں اور رعایتیں دے رہا تھا جو اب ممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستان کی معیشت ایسی پوزیشن میں آچکی ہے جہاں اب افغانیوں کو یہ رعایتیں دینا ممکن ہی نہیں رہا لیکن مولانا اپنے دورے کے دوران ایسی کوئی رعایتیں دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھے۔
افغانیوں کے پاکستان کا بارڈر کراس کرنے پر بھی سختی شروع کی گئی ہے۔ وہ بغیر دستاویزات کے پاکستان آنا جانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں جرائم کرکے افغانستان چلے جانے کو بھی اپنا حق سمجھتے ہیں، اگر وہ پاکستان میں کسی جرم میں پکڑے جائیں تو اسے بھی اپنے ساتھ زیادتی سمجھتے ہیں۔
اب جب انھیں کہا جا رہا ہے کہ وہ ویزہ لے کر آئیں تویہ بھی زیادتی سمجھی جا رہی ہے، اسی لیے ہم نے پاک افغان بارڈر پر جھڑپیں بھی دیکھی ہیں۔ لیکن اب آنے جانے کو آسان نہیں بنایا جا سکتا۔بلکہ مزید سختی کے راستے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ مولانا اس معاملے پر بھی افغان حکومت کی کوئی مدد نہیں کر سکتے تھے۔
جہاں تک ٹی ٹی پی کی بات ہے تو شاید افغان حکام اس معاملے پر ابھی پاکستان کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے ذریعے وہ پاکستان کی حکومت کو اپنی شرائط منوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس لیے ایک عمومی رائے یہی ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو اپنے لیے ایک ترپ کا پتہ سمجھتے ہیں جس کے ذریعے وہ پاکستان کی فوج سے براہ راست کچھ رعایتیں لینے کی پوزیشن میں ہر وقت رہ سکتے ہیں۔ آجکل جیسے جیسے پاکستان نے افغانستان پر سختیاں شروع کی ہوئی ہیں تو پاکستان میں ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں بھی تیز ہیں۔
شاید یہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی شعوری کوشش ہے۔ کیا پاکستان نے ٹی ٹی پی کی تیز سرگرمیوں سے پریشان ہوکر مولانا کو کابل بھیجا ہے ؟ میں سمجھتا ہوں ایسا نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ افغان طالبان کو یہ پیغام پہنچایا گیا ہو کہ ٹی ٹی پی کو کنٹرول کریں لیکن فی الحال جواب میں پاکستان کچھ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
مولانا سے پہلے گورنر قندھار کی قیادت میں ایک وفد پاکستان آیا تھا۔ وہ بھی کچھ بات کرنے ہی آئے تھے لیکن اس میں بھی کوئی بڑی پیشرفت سامنے نہیں آئی ہے۔ مولانا ہیبت اللہ افغانستان کی حکمرانی قندھار میں بیٹھ کر ہی کرتے ہیں اس لیے قندھار کا گورنر ان کا سب سے قریبی آدمی سمجھا جاتا ہے۔
جو لوگ افغانستان کو سمجھتے ہیں انھیں اندازہ ہے کہ قندھار کا گورنر کئی معاملات میں افغانستان کے وزیر اعظم سے بھی طاقتور ہے اس لیے قندھار کے گورنر کو پاکستان بھیجنے کا مطلب یہی سمجھا جا رہا ہے کہ افغان طالبان کی قیادت پاکستان سے بات کرنا چاہتی ہے۔ پھر افغانستان کے میڈیا میں ایسی خبریں جاری کرائی گئیں طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا ہے لیکن گرفتار شدگان کے نام سامنے نہیں آئے ہیں، ان کی شناخت بھی سامنے نہیں آئی ہے۔ پاکستان کا مطالبہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگ ان کے مجرم ہیں ان کو پاکستان کے حوالے کیا جائے لیکن افغان طالبان اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ افغان طالبان نے یہ پیشکش کی ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو پاکستان کے بارڈر سے دور آباد کر دیا جائے گا اور ان سے اسلحہ لے لیا جائے گا۔ لیکن شاید پاکستان کے لیے یہ بہت کم ہے۔ اس کے عوض جو رعایتیں مانگی جا رہی ہیں وہ زیادہ ہیں۔ پاکستان کو ان کی حوالگی سے کم نہیں ماننا چاہیے۔
ہم یہ ہتھیار مستقل افغان طالبان کو نہیں دے سکتے کہ وہ جب ہم سے ناراض ہوں ٹی ٹی پی کو متحرک کر دیں۔ میں سمجھتا ہوں بات چیت ضرور جاری رہنی چاہیے۔ لیکن پاکستان کو اس بار افغان طالبان کو کوئی نرمی نہیں دینی چاہیے، مزید بلیک میل نہیں ہونا چاہیے، زبانی باتوں ، وعدوں اور معاہدوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے، صرف ایک ہی شرط رکھی جائے کہ یہ نتائج دواور ہم نتائج لو۔ ورنہ ایک دفعہ ٹی ٹی پی سے لڑنا ہے تو لڑنا ہے، افغان طالبان کا سیز فائر قبول نہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس