اب تو یقین کامل ہورہا ہے کہ تاریخ اور جغرافیہ دونوں شریف خاندان کا امتحان لینے پر تلے ہوئے ہیں۔
رکاوٹیں ہٹتی جارہی ہیں، دروازے کھلتے جارہے ہیں۔ مگر 8 فروری کو جس دریا میں ان کو اترنا ہے وہ سخت طغیانی میں ہے۔جگہ جگہ بھنور پڑ رہے ہیں۔ بہت سے مگرمچھ بھی بھوکے ہیں۔ تین بار وزارتِ عظمی کی مسند بھی انہی طاقتوں کے ایما پر نصیب ہوئی۔ پھر وہ اس مقتدرہ کے ناپسندیدہ بھی ٹھہرے۔ اب چوتھی بار میاں محمد نواز شریف باری لینے کیلئے دریا میں اتر رہے ہیں۔ مقتدرہ اور دوسری قوتیں بھی ان کو موقع دینیکیلئے بے تاب ہیں۔ ناکے ہٹائے جا رہے ہیں۔ فیصلے بدلے جا رہے ہیں۔ سرخ قالین بچھائے جارہے ہیں۔ اب 2024میں یہ امتحان (1993-1990)، (1998-1997)، (2017-2013) کے پرچوں سے بہت مختلف اور بہت مشکل ہو گا۔ اکیسویں صدی کی یہ دوسری آزمائش ہو گی۔ یقینا لائق تحسین ہیں، میاں صاحب کہ پھر اس کوئے ملامت میں آنکلے ہیں۔
دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
عین اس وقت جب ایک نیا سیاستدان اپنی مقبولیت اور جذباتی حمایت کی بلندیوں پر ہے۔ قسمت اس کی یاوری کرے نہ کرے۔ لیکن اس کے ہم قافلہ جدید و قدیم تمام وسیلوں سے اس کا پیغام لوگوں کے دلوں میں اتار رہے ہیں۔ سوشل میڈیا، فیس بک، انسٹا گرام، ٹویٹر، واٹس ایپ، مصنوعی ذہانت، پرنٹ میڈیا، برقی میڈیا۔ سب استعمال ہو رہا ہے۔ نک دا کوکا، ڈٹھا پروکا، جیل اڈیالہ، قیدی 804 نے تو ساری پنجابی واروں، اردو مثنویوں، پشتوپؤں، بلوچی رزمیوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ دریا میں اپنا طوفان بھی ہے۔ بارشیں بھی مسلسل جاری ہیں۔ ایسے برساتی موسم میں میاں صاحب کو اپنی اسی ٹیم کے ساتھ دریا پار کرنا ہے۔ امریکہ نے بھی نہ جانے کیوں پاکستان کو امریکی خصوصی تشویش کا ملک قرار دے دیا ہے۔ پھر بنگلہ دیش کے انتخاب کے مناظر، اعداد و شمار بھی ہمارے سامنے ہیں۔ شیخ حسینہ واجد چوتھی بار وزیر اعظم منتخب ہو گئی ہیں۔ ووٹرز بہت کم تعداد میں نکلے ہیں۔ عالمی جمہوریتیں منفی رد عمل دے رہی ہیں۔ بنگلہ دیش میں سماجی، معاشی، عمرانی، زرعی حالات اتنے پیچیدہ نہیں ہیں جتنے پاکستان میں ہیں۔ اب الیکشن میں ٹھیک 4ہفتے رہ گئے ہیں۔ لیکن مسلم لیگ (ن) گزشتہ انتخابی معرکوں کی طرح عوام سے اب تک رابطے نہیں کر سکی ہے۔ بڑے جلسے جلوس ہوئے ہیں نہ ہی انتخابی منشور اب تک جاری ہو سکا ہے۔ انتخابی عمل کا یہ بھی ایک لازمی جزو ہوتا ہے۔ اب تک وزارتِ عظمی کے باقاعدہ امیدوار میاں محمد نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری ہی سامنے آئے ہیں۔ عمران خان مقبول ترین لیڈر ہیں۔ مگر ملکی قوانین کے مطابق نا اہل ہیں۔
حقیقی ووٹرز کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں پولنگ اسٹیشن تک لانے کیلئے جلسے جلوس، کارنر میٹنگیں ہی بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ الیکشن کا انعقاد کروانے کیلئے قائم نگراں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی غیر جانبداری کا تاثر نہیں دے سکی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کا درست ادراک کرنے والے ادارے، تجزیہ کار، پاکستان کے اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی مورخ، مبصر جانتے ہیں کہ پاکستانیوں کی اکثریت ماضی کے حکمرانوں سے، خاص طور پر 40سال سے باریاں لینے والوں سے بیزار ہے۔ پاکستان کی اس وقت جو معاشی بد حالی ہے، اخلاقی زوال ہے، ہر شعبے میں جو ویرانی ہے۔ وہ ظاہر ہے کہ 1977سے اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ، مظفر آباد، گلگت میں پالیسیاں دینے، احکامات جاری کرنے والی فوجی اور سیاسی حکومتوں کی بدتر کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ عالمی بینک بھی کہہ چکا ہے کہ اب اکیسویں صدی میں ماضی کی ناکام بوسیدہ پالیسیاں نہیں چلیں گی۔ پاکستان کو بہت دور رس اصلاحات کرنا ہوں گی۔ پاکستان کا ہر ضلع زبان حال سے یہ کہہ رہا ہے کہ اب جاگیرداری، سرداری علاقے نہیں سنبھال سکتی۔ زمیں میر و سلطاں سے بھی بیزار ہے۔ یہ خود کاری کا دور ہے، خود انحصاری کا زمانہ ہے، عالمگیریت ہے لیکن ان کیلئے جو اپنے زمینی معدنی خزانوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ جو انسانی وسائل، یعنی عام لوگوں کی ذہانت، انکے دست و بازو کو قومی ارتقا میں بھرپور حصہ لینے کا موقع دیتے ہیں۔ 60فی صد نوجوان آبادی کی توانائی کو ملکی تعمیر میں بروئے کار لاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ 25کروڑ آبادی میں سے اکثریت کو فیصلہ سازی میں شریک نہیں کیا جاتا۔ بلوچستان اپنے آپ کو قومی دھارے سے الگ تھلگ سمجھتا ہے۔ سندھ شہری یا دیہی وہ بھی یہی محسوس کرتا ہے کہ اسلام آباد کے پالیسی ساز اس کی سوچ کو کسی قابل نہیں سمجھتے۔
ایک بد نصیبی یہ ہے کہ ہمارے سارے کلیدی عہدوں پر منظور نظر افراد متمکن کیے جاتے ہیں۔25 کروڑ آبادی کے ملک میں اہم وفاقی عہدے اور صوبائی سربراہی تقرریاں مطلوبہ اہلیت رکھنے والوں کی نہیں ہوتیں۔ میں نے فیس بک پہ اپنے احباب سے یہ دریافت بھی کیا تھا کہ کیا اہم ترین عہدوں پر فائز افسر مطلوبہ اہلیت رکھتے ہیں۔ 85فی صد نے نفی میں اظہار کیا ہے۔ حکمراں الیکشن کے ذریعے بر سر اقتدار آتے ہیں۔ ہمارے ہاں کسی الیکشن کو اب تک آزادانہ و منصفانہ نہیں کہا گیا۔ پھر وفاقی اور صوبائی قریبا 250کلیدی عہدے، جن سے ملک کی مشینری چلتی ہے، وہ بھی مطلوبہ اہمیت نہ رکھتے ہوں تو ہم جس بد نظمی اور زوال پذیری کا تجربہ کر رہے ہیں، وہی اس قوم کا مقدر ہوتی ہے۔ یہ رویہ اب قابل عمل نہیں رہا ہے۔ ملک میں قابل، اہل تجربہ کار افسروں کی کمی نہیں ہے۔
آپ بھی جانتے ہوں گے، میں بھی دیکھتا ہوں۔ اس وقت بھی چار پانچ سو افسر ہوا کا رخ دیکھ رہے ہیں۔ ممکنہ وزیر اعظموں اور وزیروں سے رابطے استوار کر رہے ہیں۔ اپنی پسندیدہ پوسٹنگ بتا رہے ہیں وہاں سے کس کو کتنا فائدہ ہوگا یہ بھی ثابت کر رہے ہیں۔
ضرورت اسی جذبے کی ہے جو 1940سے 1947 کے دوران تھا۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ پہلے تحریک پاکستان چلائی گئی تھی۔ جس میں اکثریت کی بھرپور شرکت نے صرف 7سال میں ایک نیا آزاد ملک ہمیں دے دیا۔ اب جہاں پاکستان ہے ایک مثالی جغرافیائی معاشی وحدت ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر ہم بہتر حکمرانی کیلئے تحریک چلائیں۔ اس کیلئے ہمیں جاگیرداروں، سرمایہ داروں کے علاقوں، صنعتوں اور شعبوں میں اجارہ داری ختم کرنا ہوگی۔ یہ ایسی ریاست ہو جہاں سب افراد برابر ہوں، دولت کی منصفانہ تقسیم ہو، زندگی سب کیلئے آسان ہو۔ قانون کا اطلاق سب کیلئے یکساں ہو۔
کیا میاں محمد نواز شریف اور بلاول اس کیلئے تیار ہیں۔ کیا کروڑوں ووٹر میاں صاحب سے یا بلاول سے ایسی توقع رکھتے ہیں۔؟
بشکریہ روزنامہ جنگ