نواز شریف کا اپنا فیصلہ ہے ،کسی وقت بھی واپس آسکتے ہیں،شاہدخا قا ن عباسی


اسلام آباد (صباح نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیر اعظم شاہدخا قا ن عباسی نے کہا ہے کہ یہ میاں محمد نواز شریف کا اپنا فیصلہ ہے وہ کسی وقت بھی واپس آسکتے ہیں جبکہ ڈاکٹرزکا مشورہ اور ہمارا مشورہ یہی ہے کہ وہ علاج کرواکرآئیں۔ قومی سلامتی، ملک کے نظام کو آئین کے مطابق کرنے کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ قومی سلامتی کی پالیسی میں لکھا گیا ہے کہ ہم نے 70مختلف اداروں سے مشاورات کی ، کیا آپ پارلیمان میں نہیں آسکتے تھے، اپوزیشن کوحصہ نہیں بنا سکتے تھے ۔بڑی سیدھی سی بات ہے کہ موجودہ حکومت ناکام ہو چکی ہے، اس کو آپ سپورٹ کریں گے تو اور ناکامی ہی ملے گی۔وقت، ملک اورقومی سلامتی کی ضرورت یہ ہے کہ ملک میں شفاف انتخابات ہوں، یہی ایک چیز ہے جو بہتری دے گی۔

ان خیالات کا اظہا رشاہدخا قا ن عباسی نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو میں کیا۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ عدم اعتمار کے حوالہ سے کوئی فیصلہ کسی میٹنگ میں نہیں ہوا ۔عدم اعتماد کاآپشن ہمیشہ ٹیبل پر رہے گا لیکن اس کو کب استعمال کرنا ہے اس حوالہ سے فیصلہ پی ڈی ایم کرے گی اورپیپلز پارٹی سے بھی مشورہ ہو گا۔ اگر پی ڈی ایم اور پی پی مل کر لانگ مارچ کریں تو بڑی اچھی بات ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے قومی سلامتی پالیسی دیکھی نہیں ہے تاہم اس کی ایک دستاویز سرکولیٹ کررہی ہے، قومی سلامتی پالیسی کے حوالہ سے ملک میں کوئی دو رائے نہیں ہے ،ہمیشہ سے یہی پالیسی ہے جو ہے،صرف مسئلہ یہ ہے کہ یہ پارلیمان میں آنی چاہیئے تھی لیکن پارلیمنٹ سے مشاورت نہیں کی گئی، اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت نہیں کی گئی،چار صفحات پرمشتمل جو دستاویز میڈیا کو دی گئی تھی وہ میں نے دیکھی اس میں ہر بات کاذکر ہے لیکن اس میں دو تین باتوں جمہوریت ، آئین اور سیاست کا ذکر نہیں ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ آج ریاست کو سب سے بڑا کون ساچیلنج درپیش ہے، آپ کا سیاسی نظام ہی نہیں ہے، آپ کے الیکشن چوری ہورہے ہیں، آپ کا ملک آئین کے مطابق نہیں چل رہا، سب سے بڑے چیلنجز تو یہ ہیں جب تک یہ نہیں ہو گا توکچھ بھی نہیں ہو گا،میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ملک میں عدلیہ آزاد ہونی چاہیئے اوراس کو ڈلیورکرنا چاہیئے ، میڈیا کو بھی ذمہ دار ہونا چاہئے ،ملک کی معیشت اچھی ہونی چاہیئے یہ بڑی اچھی سوچ ہے ، ہم سب کی ہے لیکن اس کے حصول کا جو بنیادی عنصر ہے وہ ملکی آئین ہے ، ملکی سیاست  ہے، جمہوریت ہے، اس کا ذکر ہی نہیں ہے۔پورے چار صفحات میں آئین کا ذکرایک بار آیا ہے کہ جو عدلتی معاملات کے ضمرے میں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی ملک کو آئین کے مطابق کرنے کے بغیر نہیں ہو سکتی ، جب تک ملک کے اندر سیاست مضبوط نہیں ہوگی نہیں ہوسکتا،جب تک ملک میں ادارے آئین کے مطابق  نہیں چلیں گے وہ نہیں ہوسکتا،ملک میں جمہوریت نہیں ہو گی تو کوئی قومی سلامتی نہیں ہو گی، کا، یہ توبنیاد ہے جب آپ اپنی قومی سلامتی پالیسی میں بنیاد ہی نہیں لکھیں گے تو پھر آپ نے کیا لکھا ہے، یہ اچھی بات ہے فوج بھی مضبوط ہونی چاہیئے، معیشت بھی مضبوط ہونی چاہیئے، ملک میں ہر چیز ہونی چاہیئے اس حوالہ سے ہم سب اتفاق کرتے ہیں۔

شاہدخا قا ن عباسی کا کہنا تھا کہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قومی سلامتی کی پالیسی میں لکھا گیا ہے کہ ہم نے 70مختلف اداروں سے مشاورات کی ، کیا آپ پارلیمان میں نہیں آسکتے تھے، اپوزیشن کوحصہ نہیں بنا سکتے تھے ۔ ضمنی مالیاتی بل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہمارا اس بل کی منظوری پر کوئی اتفاق نہیں تھا یہ عوام کے اوپر پاکستان کی تاریخ میں ایک بہت بڑا بوجھ ڈالا گیا اور سپلینمنٹری بل کے زریعہ کبھی عوام پر اتنا بڑا بوجھ نہیں ڈالا گیا ،یہ بل 352ارب روپے کا ہے جو چھ مہینے کا ہے اور سالانہ 700ارب کاہے اس میں 45 فیصد ادویات کی صنعت سے آرہا ہے جو پہلے سے ڈاکومنٹیڈ ہے، نئی صنعتیں لگانے والوں پر اضافی بوجھ ڈالا گیا۔ عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے حوالہ سے سوال ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی جمہوریت میں تبدیلی کا ایک ہی راستہ ہوتا ہے وہ عدم اعتمار ہے اور ہم اس کے حق میں ہیں لیکن میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ عدم اعتماد اس نظام میں ہوتا ہے جو نظام آئین کے مطا بق چل رہا ہو، جب نظام ہی غیر آئینی بیساکھیوں پرچل رہا ہے پھر آپ کیا عدم اعتمادکریں گے ۔ ہم نے سینٹ میں دیکھا کہ 64ممبران کھڑے ہوئے اور ووٹ50 سے کم نکلے۔عدم اعتماد کی بنیادی ضرورت ہے کہ نظام آئین کے مطابق ہو جب وہ ہو جائے گا ،کبھی ہر جگہ پر احساس ہو گا کہ ملک مشکل میں ہے اورواحد حل انتخابات ہیں توبات وہاں چلی جائے گی۔

لندن سے میاں نواز شریف کے تحریک عدم اعتماد کے سگنل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ سگنل کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہماری مشاورت ہوتی ہے اورعدم اعتمار کے حوالہ سے کوئی فیصلہ کسی میٹنگ میں نہیں ہوا ، لیکن یہ بنیادی فیصلہ موجود ہے کہ ہم نے عوام کو اس حکومت سے نجات دلوانی ہے اور شفاف الیکشن میں جانا ہے اوراس حوالہ سے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر جائزہ لیا جاتا ہے۔ضمنی فنانس بل کی منظوری کے موقع پر حکومت 172ارکان بھی پورے نہیں کرسکی۔ میاں نواز شریف کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے12ارکین کے رابطے میں ہونے کے سوال  پر شاہدخا قا ن عباسی کا کہنا تھا کہ22کو تو میں جانتا ہوں اوراس کے علاوہ بھی لوگ ہیں اور ان میں وزیر بھی شامل ہیں اور ان کا تعلق پنجاب اوردیگر صوبوں سے بھی ہے، جو پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں چلنا چاہتے ان کہنا  ہے کہ ہم عوام میں جانے کے قابل نہیں ہیں ،ہم اگر اگلا الیکشن پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑیں گے تو ہمیںووٹ ملنا نہیں ہے اور ہماری سیاست ختم ہوجائیگی اور وہ چاہتے ہیں کہ انہیں (ن)لیگ یا کسی اور جماعت کی طرف سے یقین دہانی کروائی جائے کہ الیکشن لڑسکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس عدالت میں جمع کروائی ہوئی ہیں، اگر روزانہ کی بنیاد پر رپورٹس جمع کروانی ہیں تو بتادیں روز جمع کروادیا کریں گے۔ نواز شریف کی تین بڑی انٹروینشنز ہونی ہیں ، ان کا ذکر بھی ہے کہ وہ کیا ہیں اور کیسے ہوں گی اورکب ہوں گی۔ یہ میاں محمد نواز شریف کا اپنا فیصلہ ہے وہ کسی وقت بھی واپس آسکتے ہیں جبکہ ڈاکٹرزکا مشورہ اور ہمارا مشورہ یہی ہے کہ وہ علاج کرواکرآئیں۔