عام انتخابات کچھ قانونی الجھنیں اور سوالات … تحریر : مزمل سہروردی


بانی پاکستان تحریک انصاف اوراس پارٹی کے وائس چیئرمین کی ضمانت منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس بھی سامنے آئے ہیں کہ دونوں رہنماؤں نے عام انتخابات میں حصہ لینا ہے لہذا صرف انتخابات میں حصہ لینا ہی ایک وجہ کافی ہے ضمانت کے لیے، کیونکہ عام انتخابات میں حصہ لینے سے کسی کو بھی روکا نہیں جا سکتا۔

میں کافی دن سے اس پرغور کر رہا ہوں کہ کیا یہ اصول استدلال اورمنطق قانون کے مطابق ہے؟۔ کیا قانون کی نظر میں کسی ملزم کی ضمانت کے لیے صرف انتخابات میں حصہ لینے کی ایک ہی وجہ کافی ہو سکتی ہے، چاہے اس کا جرم کتنا بھی سنگین کیوں نہ ہو؟کیا جرم کی نوعیت اور سنگینی کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف انتخابات میں حصہ لینے کی وجہ کو سامنے رکھتے ہوئے ملزم کی ضمانت قبول کر لینی چاہیے؟

تحریک انصاف کے کئی رہنما جو کافی عرصہ سے قانون کو مطلوب اور اشتہاری ڈکلیئر بھی تھے۔ انھوں نے بھی اسی بنیاد پر مختلف عدالتوں سے فوری عبوری ضمانتوں کے لیے رجوع کیا، عدالت نے انھیں بھی کاغذ جمع کرانے کی اجازت دی ہے اور انھیں عبوری ضمانتیں بھی دی گئی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ عبوری ضمانت ہر شہری کا حق ہے اور اس حق سے کوئی بھی عدالت کسی بھی طرح انکار نہیں کر سکتی۔ لیکن میرا استدلال یہ ہے کہ عام انتخابات قوم کی نمائندگی کرنے کا معاملہ ہے ، کیا مفروروں اور اشتہاریوں کوعوامی نمائندگی کرنے کا حق دیا جا سکتا ہے؟

کیا مفروروں اور اشتہاریوں کو یہ سہولت دینا جائز ہے کہ ان کے عدالت کے سامنے پیش ہوئے بغیر بھی ان کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال ہو سکتی ہے اور انھیں منظور بھی کیا جا سکتا ہے؟ہم نے دیکھا ہے کہ پی ٹی آئی کے مفرور اور اشتہاریوں کے کاغذات نامزدگی بھی مختلف حلقوں سے منظور ہو گئے ہیں حالانکہ وہ لوگ ابھی تک مفرور اور قانون کو مطلوب بھی ہیں ، اشتہاری بھی ہیں اور ان کے کاغذات بھی قبول ہو گئے ہیں۔

تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر کا نام ایسے ناموں میں شامل ہے۔ میں اور بھی کئی نام لکھ سکتا ہوں۔ لیکن یہاں ناموں کو لکھنا مقصد نہیں ہے میں قانون پر لکھنا چاہتا ہوںاور اپنی بات قانونی انداز میں کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

سب سے پہلے کیا انتخابات میں حصہ لینا کسی ملزم کی ضمانت کے لیے کافی وجہ ہے؟ اگر میں اس منطق استدلال اور دلیل کو قبول کر لوں تو پھر پاکستان کی جیلوں میں ہزاروں ایسے قیدی جنھیں حتمی سزا نہیں ہوئی ہے وہ اپنے اپنے حلقوں سے الیکشن لڑنے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروادیں اس کی کاپی عدالت میں جمع کروائیں اور ضمانت پر رہائی حاصل کر لیں۔ مجھے کامل یقین ہے کہ ہمارا نظام انصاف یکساں نظام انصاف کے اصول پر قائم ہے۔

اس میں مقبول اور غیر مقبول امیر اور غریب بڑے اور چھوٹے کی کوئی تمیز یا امتیاز نہیں ہے۔ لہذا اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہیے کہ کاغذات نامزدگی کس نے جمع کروائے ہیں؟ بات اصول یا قانونی نظیر کی ہے کہ انتخابات لڑنا ضمانت کے لیے واحد وجہ کافی ہے۔ جرم کی نوعیت کیا ہے؟ یہ بات اہم نہیں ہونی چاہیے۔

اس اصول کے بعد پاکستان کی جیلوں میں قید تمام انڈر ٹرایل قیدی ملزمان کی ضمانت صرف اس شرط پر ہو جانی چاہیے کہ انھوں نے کاغذات نامزدگی جمع کرادیے ہیں اور وہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ انھوں نے کیا جرم کیا ہے یہ کوئی اہم بات نہیں ہونی چاہیے۔

انتخابی تاریخ میں جیل میں بیٹھ کر انتخابات لڑنے کی روایت موجود ہے۔ جب تک آپ کو سزا نہ ہوجائے آپ انتخابات لڑنے کے اہل ہیں۔ اس لیے لوگ جیل سے بیٹھ کر انتخابات لڑتے رہے ہیں۔ لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس بنیاد پر ضمانت صرف ایک دو سیاسی رہنماں کا حق نہیں ہونا چاہیے۔ یہ صرف ایک مخصوص سیاسی جماعت کے رہنماؤں کا حق نہیں ہونا چاہیے۔

یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ قانون کی یہ دلیل اور منطق کسی مخصوص جماعت اور اس کے رہنماؤں کوالیکشن میں لیول پلیئنگ فیلڈ دینے کے لیے تو استعمال نہیں ہو گی۔ یہ پاکستان کے تمام شہریوں پر یکساں استعمال ہونی چاہیے۔

آپ جیل سے انتخابات جیت جائیں تو بھی یہ ضمانت کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔منتخب ایوان کا اسپیکریا چیئرمین آپ کے پروڈکشن آرڈر تو جاری کر سکتا ہے لیکن انتخابات جیت کر اپنے حلقہ کی نمائندگی کرنے کی وجہ بھی ضمانت کے لیے کوئی دلیل نہیں ہو سکتی۔ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے۔

اراکین پارلیمنٹ قید رہے ہیں، اور ان کو اس بنیاد پر کبھی ضمانت نہیں ملی کہ وہ ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ ہم نے تو دیکھا ہے کہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر بھی گرفتار ہو گئے تھے۔ ان کی ضمانت نہیں ہوئی تھی یہ الگ بات ہے کہ بلا لحاظ عہدہ وہ اپنے پروڈکشن آرڈر خود ہی جاری کر لیتے تھے۔

لیکن آنرایبل کورٹ اس بنیادپر ضمانت دینے کے لیے تیار نہیں تھی کہ وہ منتخب اسمبلی کے اسپیکر اور رکن ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف دوسال سے زائد قید رہے لیکن ان کی ضمانت نہیں ہوئی۔ حالانکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ قومی اسمبلی میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے بغیر کارروائی چل ہی نہیں سکتی۔ لیکن نہ تو قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف کی ضمانت ہوتی تھی اور نہ ہی پروڈکشن آرڈر جاری کیے جاتے تھے۔

حالیہ انتخابات میں ہم نے دیکھا ہے کہ قانون کو مطلوب مفرور اشتہاریوں کے بھی کاغذات نامزدگی جمع ہو گئے ہیں بلکہ ان کی غیر موجودگی میں ان کے وکیل بھی کاغذ جمع کروا سکتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں بذریعہ وکیل کاغذ جمع کروانے کی تو قانون میں گنجائش موجود ہے لیکن اگر آپ کسی کیس میں مفرور ہیں اشتہاری ہیں تو پھر بھی آپ بذریعہ وکیل کاغذ جمع کروا سکتے ہیں، کیا یہ قانون اور ریاستی نظام کی زوال پذیری نہیں۔ کیا ہمارا نظام قانون اور ہمارا نظام انتخاب کمزور نہیںہو جائے گا۔

کیا کوئی قانون کو مطلوب بھی ہو سکتا ہے اور انتخابات میں حصہ بھی لے سکتا ہے۔اگر ہم کسی مالی ڈیفالٹر کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتے۔ اگر آپ نے بجلی کا بل بھی بروقت نہیں دیا تو آپ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ تو پھر آپ قانون اور نظام انصاف کے ڈیفالٹر ہو کر کیسے انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں؟

کیا کسی ملزم کی یہ منطق اور دلیل قبول کی جا سکتی ہے کہ حالات اس کے حق میں نہیں ہیں حکومت اس کی مخالف ہے، اس لیے وہ قانون کے سامنے سرنڈر نہیں کر رہا اسے انتخاب میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے وہ حکومت میں آکر سب ٹھیک کر لے گا۔ کیا نظام انصاف اور نظام قانون اس منطق اور دلیل کو قبول کر سکتا ہے؟

جہاں تک انتخابات سے قبل عبوری ضمانت حاصل کر کے اس میں حصہ لینے کی بات ہے توقانونی نظاہر کو دیکھا جائے تو اس میں قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہے۔ لیکن کچھ پہلو غوروفکر کا تقاضا بھی کرتے ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے کا جواز بنا کر عبوری ضمانت حاصل کر کے قانون کی گرفت سے بچنے کا پہلو ضرور سامنے رکھا جانا چاہیے۔

آپ انتخابی شیڈول کے سامنے آتے ہی عبوری ضمانت حاصل کریں وکلا کے ذریعے اس عبوری ضمانت کو ایک دو ماہ چلائیں انتخابی مہم چلائیں جیت جائیں تو ٹھیک ورنہ دوبارہ اشتہاری اور مفرور ہو جائیں لہذا ان کی عبوری ضمانت کا فوری فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔

کیونکہ عبوری ضمانت اور ضمانت کو صرف انتخابات میں حصہ لینے کے لیے استعمال کرنا کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے۔ انتخابات لڑنے والوں کو قانون پسند ہونا چاہیے۔ انھیں قانون کے تابع ہونا چاہیے۔ وہ خود قانون سے مفرور ہوں گے تو نظام کیسے چلے گا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس