ایڈیٹر موصوف کی سیاسی فضا محسوس کرنے کی حِس خاصی تیز ہے۔ وہ زرداری صاحب کا قرب حاصل کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے، جس میں وہ بالآخر کامیاب ہوگئے۔
2013میں پنجاب میں نگران سیٹ اپ قائم ہوا، آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ نگرانوں کی سب سے بڑی ذمے داری یہ ہوتی ہے کہ وہ انتخابات کے دوران غیر جانبدار افسران تعینات کریں تاکہ الیکشن منصفانہ ہو سکیں۔ بہرحال نگران سیٹ اپ قائم ہوگیا، اس کے بعد آئی جی پنجاب کے ساتھ جو پہلی میٹنگ کی اس میں پہلا حکم راقم کی ٹرانسفر کا دیا گیا۔
آئی جی نے یہ کہا کہ اس افسر کی غیر جانبداری تو مسلمہ ہے اور حال ہی میں گوجرنوالہ میں ثابت بھی ہوچکی ہے جس کا پورا ملک گواہ ہے۔ اس کی فیملی مسلم لیگ میں تھی مگر اس نے ضمنی الیکشن میں پولیس کو غیر جانبدار رکھا، جس پر مسلم لیگی حکومت اس سے ناراض ہوگئی تھی، اگر وہ غیرجانبدار نہیں تو اور کون غیر جانبدار ہوسکتا ہے بہرحال ٹرانسفر کا فیصلہ اٹل تھا، آئی جی آفتاب سلطان چاہتے تھے کہ میں پنجاب میں ایڈیشنل آئی جی کے طور پر کام کروں مگر میں تیار نہ ہوا۔
اِس دوران پاسپورٹ کا محکمہ ایک سنگین بحران کا شکار ہوگیا اور مجھے اسلام آباد بلا کر پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کردیا گیا۔
اس کے چند ہفتوں بعد اولڈ راوینز ایسوسی ایشن کا سالانہ عشائیہ منعقد ہوا۔ اس تقریب میں نگران وزیراعلی بھی تشریف لائے، اسٹیج پروہ میرے بائیں جانب والی کرسی پر تشریف فرما تھے۔ سب سے پہلے مجھے تقریر کے لیے بلا یا گیا جس میں میں نے نگرانوں کو بے رنگ اور بے ذائقہ قسم کے بے موسمی پھل سے تشبیہہ دی تو لوگ ہنس پڑے، معروف ٹی وی ہوسٹ آفتاب اقبال کا قہقہہ سب سے نمایاں تھا۔
اسٹیج پر دو نگران وزیر بھی بیٹھے تھے، وہ بھی ہنسنے لگے، میرے دوست اور اولڈ راؤنیز کے جنرل سیکریٹری شہباز شیخ نے چٹ بھیج کر مجھے درخواست کی تو میں نے تقریر کا رخ موڑ دیا۔ 2013کے انتخابات میں توقع کے مطابق مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے جیت گئی۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین نے صوبائی نگران حکومت پر بغیر تحقیق کے پینتیس پنکچر کا الزام لگایا، جو یقینا غلط تھا۔ بعد میں انھیں کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ ان کی اہلیہ محترمہ اپنے آبائی حلقے سے 2018کے الیکشن میں رکن پنجاب اسمبلی بن گئی تھیں۔ مسلم لیگ ن نے ان کے مقابلے میں کوئی امیدوار کھڑا نہ کیا یعنی انھیں سپورٹ کیا اور وہ الیکشن جیت گئیں۔
پنجاب اسمبلی میں وزارتِ اعلی کے لیے انھوں نے عثمان بزدار کے حق میں ووٹ کاسٹ کیا۔ عمومی خیال یہی تھا کہ وہ مسلم لیگ ن کے امیدوار کو ووٹ ڈالیں گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ زمانے کی گردش کے تحت اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی تو بالآخر پنجاب سے بھی ختم ہوگئی۔ حمزہ شہبازنے جب اپنی کابینہ کا اعلان کیا تو اس میں بیگم صاحبہ کا نام بھی موجود تھا۔
زمانے کی گردش کے تحت 2022میں اسمبلیوں کی معیاد پوری ہونے پر وفاق اور صوبوں میں نگران حکومتیں بنادی گئیں، پنجاب میں ایک کامیاب صحافی محسن نقوی کو نگران وزارت اعلی سونپی گئی۔ نقوی صاحب کی دوباتیں بہت اچھی لگی ہیں۔ ایک سادگی اور دوسری بھاگ دوڑ، وہ روایتی قسم کے نگرانوں کی طرح دفتر تک محدود نہیں بلکہ بڑے متحرک ہیں اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہتے ہیں۔ مگر لگتا ہے پولیس کی تعیناتیاں انھوں نے پولیس افسروں کی صوابدید پر چھوڑ رکھی ہیں۔
مثالیں تو بہت سی دی جاسکتی ہیں ہوں مگر ایک پر ہی اکتفا کروں گا، کیونکہ اس کا تعلق میرے آبائی ضلع گوجرانوالہ سے بھی ہے اور اس کرسی سے بھی جہاں کبھی میں خود بیٹھا کرتا تھا۔ نقوی صاحب کے سسر محمد اشرف مارتھ شہید میرے لیے بڑے بھائی کی طرح تھے، جب میں نیشنل پولیس اکیڈمی میں اے ایس پیز کی ٹریننگ کا انچارج (کورس کمانڈر) تھا تو ایک نوجوان اے ایس پی نے آکر بتایا میں اشرف مارتھ صاحب کا بھانجا ہوں۔
اسی وقت منیر مارتھ کے لیے میرے دل میں اپنائیت کے جذبات امڈ آئے، وہ جہاں بھی رہا، میرا اس سے رابطہ رہا۔رشتے داری کی وجہ سے چوہدری پرویز الہی کے دور میں اسے ایک آدھ بار بہتر پوسٹنگ بھی ملی۔ جب میں گوجرنوالہ تعینات تھا تو میں نے منیر کو وہاں انویسٹی گیشن کا انچارج لگوا لیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ ایک ایماندار اور قابل افسرہے۔ پچھلے سال وہ گوجرنوالہ میں آر پی او بن کر تعینات ہوا تھا مگر نگران حکومت نے آتے ہی منیر مارتھ کو ٹرانسفر کر دیا گیا۔
نقوی صاحب! میں جب بھی گوجرانوالہ جاتا ہوں تو وہاں کے صنعتکار، بزنس مین اورصاحبانِ علم ودانش ملتے ہیں اور مجھ سے پوچھتے ہیں کہ یہ تحفے دیے ہیں نگرانوں نے گوجرانوالہ کو! ایسے تحفے تو پی ٹی آئی نے بھی گوجرانوالہ کونہیں دیے تھے، جن کی بری گورننس پر آپ بہت تنقید کرتے ہیں۔
پرویز الہی نے اگر کرپشن کی ہے تو اس کے خلاف مضبوط شہادت لاکر کیس چلائیں مگر اس کا کوئی دور کا رشتے دار ایماندار ہو،تو بھی اسے پنجاب سے ٹرانسفر کرکے بلوچستان بھیج دیا جائے! یہ انصاف اور غیر جانبداری نہیں ہے!!
نقوی صاحب! یہ بھی شاید آپ کے علم میں ہوگا کہ 9 مئی کے بعد ملک کی معیشت تو برباد ہوئی مگر کئی افسروں نے اپنی معیشت بڑی بہتر کرلی ہے، جو 9 مئی کے گرفتار شدگان کو چھوڑنے کے پانچ لاکھ سے پچاس لاکھ تک وصول کرتے رہے ہیں۔ آپ پر لازم ہے کہ چند ایماندار پولیس افسروں اور صحافیوں سے انکوائری کروائیں اور اگر ان پر کرپشن ثابت ہو جائے تو رقم برآمد کراکے پولیس کے شہدا فنڈ میں جمع کرادیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس