بلوچ مائیں، شرباکوف اور میکسم گورکی : تحریر وجاہت مسعود


اقتدار کے اختیار اور فرد کی آزادی کی جدلیات سے معاشرے کی سمت متعین ہوتی ہے۔ مجھے ہم وطن بلوچ بھائی بہنوں پر اسلام آباد میں ٹوٹنے والی افتاد پر بات کرنا ہے۔ بیرون ملک زیر تعلیم کامنی مسعود ان بلوچ ماؤں کے بارے میں بے چین ہو رہی ہے جو 20 دسمبر کی شام تربت سے 1965 کلومیٹر سفر کر کے اسلام آباد پہنچی تھیں۔ جوان اولاد کو یہ سمجھانا مشکل ہوتا ہے کہ سیاست، ریاست اور جرم کے دھارے ہر جگہ اور ہر زمانے میں ملتے اور جدا ہوتے رہتے ہیں۔ سو صرف یہ یاد دلا دیا کہ وہ جہاں بیٹھی ہے، وہاں فلسطینی ماؤں اور بچوں کے بارے میں بات کرنے پر پہرے ہیں۔ ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا۔

گزشتہ مہینے 20 نومبرکو تربت میں چوبیس سالہ بالاچ بلوچ گرفتار کیا گیا۔ اہل خانہ کے مطابق بالاچ بلوچ 29 اکتوبر کو حراست میں لیا گیا تھا۔ 23 نومبر کو حکام نے دعویٰ کیا کہ بالاچ بلوچ کی نشان دہی پر ایک چھاپے کے دوران وہ تین ساتھیوں سمیت مارا گیا ہے۔ اہل پاکستان ایسے چھاپوں میں زیر حراست ملزموں کی ہلاکت خوب سمجھتے ہیں جن میں سرکاری اہلکاروں کو خراش تک نہیں آتی۔ اسی کا ایک زاویہ یہ ہے کہ مغربی سرحد پر دہشت گرد حملوں میں دو طرفہ ہلاکتوں کی تعداد قریب قریب برابر ہوتی ہے۔ تربت کی عدالت کے حکم کے باوجود متعلقہ اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ بدھ کی شام پچاس خواتین سمیت کوئی 80 افراد اسلام آباد پہنچے جہاں انہیں کوئی ’اپنے لوگ‘ قرار دینے پر تیار تھا اور نہ ان میں کرنسی نوٹ تقسیم کیے گئے۔ اس احتجاج کی رہنما ماہرنگ بلوچ کے لاپتہ باپ عبدالغفار کی مسخ شدہ لاش 2011 میں ملی تھی۔ رات گئے احتجاج کرنے والے غیر مسلح شہریوں پر ہلہ بول دیا گیا، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے علاوہ دسمبر کی سرد رات میں پانی پھینکا گیا۔ درجنوں شہری گرفتار ہوئے۔ آئی جی اسلام آباد کے مطابق یہ کارروائی نگران وزیراعظم کے حکم پر کی گئی۔ بعد ازاں بیشتر گرفتار افراد کو رہا کر دیا گیا تاہم کوئی بیس بلوچ نوجوان اب بھی لاپتہ ہیں۔ پاکستان کا کوئی شہری غیر آئینی مطالبوں کی حمایت نہیں کرتا لیکن ریاست کی غیرقانونی کارروائیوں کی تائید کیسے کی جائے؟ 52 سالہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ قابل رشک فصاحت سے وطن دشمن عناصراور ریاستی اختیار کا تعلق بیان کرتے ہیں لیکن شاید انہیں ڈاکٹر شازیہ خالد سانحے کے حقائق استحضار نہ ہوں۔ صرف یہ یاد دلانا ہے کہ مارچ 2005 ءمیں شازیہ خالد اور اس کے شوہر کو وطن چھوڑنے پر مجبور کرنے والے دو صحافیوں میں سے ایک کو جون 2000ءمیں برطانوی حکام نے ملک بدر کرنے کا حکم دیا تھا۔ دوسرا مبینہ صحافی امریکا میں منشیات کے دھندے میں ممکنہ 25 سال قید سے بچنے کے لیے پاکستان بھاگ آیا تھا۔ قومی شرمساری کی یہی حکایت بالآخر 26 اگست 2006 کو اکبر بگتی کی ہلاکت پر منتج ہوئی۔ تب سے بلوچستان کی وفاقی اکائی عدم استحکام کا شکار ہے۔ چوہدری شجاعت کی مصالحت کاری کام آئی اور نہ یوسف رضا گیلانی کا آغاز حقوق بلوچستان کامیاب ہو سکا۔ شہباز شریف نے تو صاف کہا تھا کہ وہ متعلقہ حکام سے بات کریں گے۔ لاپتہ افراد کا کمیشن سینکڑوں لاپتہ افراد بازیاب کرنے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ یہ افراد کس غار میں مراقبہ فرما رہے تھے۔ اپنی بے دست وپائی کی یہ حکایت یہیں تک بیان ہو سکتی ہے۔ آئیے سوویت یونین کے ایک اہلکار اور پھر ایک ادیب کا کچھ ذکر رہے تاکہ ایک غیر جوابدہ حکومت میں قلم کار اور سرکاری اہلکار کے کردار میں فرق سمجھا جا سکے۔

الیگزینڈر شرباکوف 1918 میں کمیونسٹ پارٹی کا رکن بنا۔ 1934 میں یونین آف سوویت رائٹرز کا رسمی سربراہ میکسم گورگی تھا لیکن اصل اختیارات شرباکوف کے پاس تھے جس نے زندگی میں ایک تخلیقی سطر نہیں لکھی تھی۔ یہ شخص سوویت روس میں چھپنے والی ہر تحریر سنسر کرتا تھا۔ 1941ءمیں شرباکوف ماسکو کمیونسٹ پارٹی کا سیکرٹری اور پولٹ بیورو کا امیدوار رکن تھا۔ مسلح افواج کے سیاسی شعبے کا سربراہ تھا۔ محکمہ اطلاعات کی ذمہ داری اس کے پاس تھی۔ دوسری عالمی جنگ میں ماسکو کا طاقتور ترین شخص اور سخت گیر منتظم شرباکوف بے تحاشا مٹاپے کا شکار تھا۔ ہمہ وقت ساغر بدست شرباکوف ایک روز سوویت یونین کا سربراہ بننا چاہتا تھا۔ جنگ ختم ہونے کے صرف ایک روز بعد شرباکوف کام، غصے اور رگوں میں دوڑتے مائع طرب انگیز کی زیادتی کے ہاتھوں اچانک مر گیا۔ میکسم گورکی اشتراکی حقیقت پسندی کا نشان سمجھا جاتا ہے لیکن اکتوبر انقلاب کے بعد اسکے بالشیوک حکمرانوں سے تعلقات خراب ہی رہے۔ لینن کا نام سنتے ہی گورکی پھٹ پڑتا تھا کہ ’اس کے سر میں اقتدار کا خناس سما گیا ہے‘۔ لینن اور دیگر بالشیوک رہنماؤں کے بارے میں گورکی نے کہا تھا کہ یہ لوگ آزادی اظہار کے دشمن ہیں اور اندھا دھند گرفتاریوں سمیت ہر طرح کا جرم کر سکتے ہیں۔ خود لینن بھی گورکی پر سخت تنقید کرتا تھا۔ بالآخر گورکی نے ستمبر 1921ءمیں جلاوطنی اختیار کر لی جہاں وہ سوویت حکومت کے عوام دشمن جرائم کے خلاف آواز اٹھاتا رہا۔ یوکرائن قحط کے بعد سٹالن کو ریاستی پراپیگنڈے کیلئے گورکی کا سہارا چاہیے تھا۔ ادھر اٹلی میں مسولینی کی فسطائیت عروج پر تھی۔ 1932میں گورکی کو بہلا پھسلا کر سوویت یونین واپس لایا گیا۔ اب وہ سٹالن کی گرفت میں تھا۔ کبھی ایک ادیب کی رہائی کیلئے کوشش کرتا تو کبھی کسی شاعر کی نظم نظرانداز کرنے کی درخواست کرتا۔ کروڑوں روسیوں کے قاتل سٹالن کیلئے ایک بوڑھے ادیب کا قتل کیا مشکل تھا لیکن گورکی دنیا بھر میں بائیں بازو کیلئے اشتراکی ادب کا سرکاری استعارہ تھا۔ جون 1936 میں اپنے بیٹے کی مشکوک موت سے نڈھال میکسم گورکی نمونیے سے مر گیا تو سٹالن نے سکھ کا سانس لیا۔ شرباکوف اور گورکی کے سفر حیات کی تفصیل کتابوں میں موجود ہے۔ ہمیں صرف یہ جاننا چاہیے کہ ہمارے ملک میں شرباکوف کون ہے اور میکسم گورکی کون ہے۔ واضح رہے کہ میں نے محمد حنیف کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ