2024، ووٹ حقیقی آزادی کیلئے: تحریر محمود شام


’’بیٹیاں پھول ہیں۔

ماں باپ کی شاخوں پہ جنم لیتی ہیں۔

گھرکو جنت سا بنادیتی ہیں۔

ہر قدم پیار بچھادیتی ہیں۔‘‘

ریاست جو ماں جیسی ہوتی ہے۔ وہ بیٹیوں پر لاٹھیاں کیسے برسا سکتی ہے۔ وہ کپکپاتی سردی میں ان پر ٹھنڈا پانی کیسے پھینک سکتی ہے۔

بیٹیاں سینکڑوں میل چل کر تحفظ کیلئے راجدھانی آتی ہیں کہ وہاں بلوچستان کا ایک بیٹا چیف ایگزیکٹو ہے۔ وہ امیدوں کے پتھروں پر ننگے پاؤں اس لیے چلی ہیں کہ ایک بلوچ ایوان بالا کا منتخب سربراہ ہے۔ وہ ان تمنّاؤں کے دوش پر بیٹھ کر اس لیے اتنی دور آئی ہیں کہ انہیں انصاف ملے گا کہ انصاف کے سنگھاسن پر بلوچستان کا ایک فرزند رونق افروز ہے۔

یہ بیٹیاں شاید یہ نہیں جانتیں کہ راجدھانیاں کہیں کی بھی ہوں، ان کی بنیاد سفاکی پر رکھی جاتی ہے، یہ ایوان بے حسی کے سیمنٹ، رعونت کے گارے سے کھڑے کیے جاتے ہیں۔ خیالِ ہم نفساں، انسان دوستی راجدھانیوں میں داخل نہیں ہو سکتی ہیں۔

…..

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر اکٹھے ہونا۔ گھر، محلے، شہر، صوبے، ملک اور دنیا جہان کے حالات حاضرہ پر تبادلۂ خیال۔ اولادوں کے ذہنوں میں سلگتے سوالات کے جوابات دینے کا دن۔ مجھے بہت خوشی ہوتی ہے جب ملنے والے میرے اس جملے کو دہراتے ہیں۔ ایک لکھنے والے کی تسکین پڑھنے والے سے مل کر ہی ہوتی ہے۔ حالات کی زلفیں الجھ رہی ہیں، ہم ایک دوسرے سے بے گانے ہورہے ہیں، میری تو گزارش ہوتی ہے کہ ہم اپنے محلے والوں سے بھی ہر اتوار کو ملیں، اپنے جتنے مسائل خود حل کر سکتے ہیں، وہ مل جل کر نمٹانے کی کوشش کریں، آپس میں معاملہ سنوار نہیں سکتے تو کسی بزرگ دانشور سے ملیں، اپنے امام مسجد سے بات کریں، اپنے کونسلر کے پاس جائیں، الیکشن ہو چکے ہوں تو رکن صوبائی اسمبلی کے پاس وفد لے کر جائیں۔ خبردار رہیں کہ ہمارے معاشرے میں ہماری مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے والے مافیاز جو آٹے، چاول، دودھ، گوشت، ٹرانسپورٹ، پینے کے پانی پر قابص ہیں۔ جو میرٹ کا راستہ روک رہے ہیں، جنہوں نے سرکاری ملازموں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے، وہ ہمارے سماج میں کوئی سسٹم نہیں چاہتے۔ وہ ہمیں یہ قانونی مراحل اختیار نہیں کرنے دیتے۔ کیونکہ اس طرح ایک نظام مستحکم ہو جائیگا۔ یہ مافیاز غیر ضروری ہو جائیں گے۔ ریاست اور خلق خدا کے درمیان جو ترتیب طے ہوتی ہے۔ جسے آپ آئین کہتے ہیں یا عمرانی معاہدہ، یہ بھی اسی صورت نتیجہ خیز ہو سکتا ہے کہ اس کے درجہ بدرجہ مراحل پر پورا عملدرآمد ہو۔

ایک بے یقینی ہے، بے چینی ہے۔ نوجوان ہوں یا بزرگ، آسمان کی طرف دیکھتے ہیں۔ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، اب کیا ہو گا؟ کسی بھی سماج میں ایسے ادوار بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ جب ہر عمر کے انسان اپنے حال سے تنگ اور اپنے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں۔ بہت سے کبوتر تو آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ بلّی کو موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنا سفاکانہ شوق پورا کر لے۔ قدرت کے قوانین بہت سخت ہیں۔

تمیز بندہ و آقا فساد آدمیت ہے

حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

اقبال یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ : ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔ اقبال کو جو دَور غلامی ملا تھا۔ وہ بھی بے حد جبر اورابتلا کا زمانہ تھا۔ غیروں کی غلامی تھی مگر وہاں کچھ قاعدے قانون تھے۔ اب اپنوں کی غلامی میں کوئی آئین ہے نہ طور طریقے۔

کس درجہ بھیانک رہی اپنوں کی غلامی

بہتر تھی کہیں اس سے تو غیروں کی غلامی

بہرحال ہم کبوتر نہیں ہیں۔ ہم آنکھیں بند کر کے قاتلوں کا لقمہ بننے کا انتظار نہیں کر سکتے۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے آزادی کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں۔ گھر بار چھوڑے ہیں۔ پیٹ پر پتھر باندھے ہیں۔ پہلے ہندوستان سے لٹ پٹ کر مہاجر آئے۔ پھر مہاجروں اور انصاروں نے مل کر اپنے حق رائے دہی، جمہوریت کی بحالی، حقیقی آزادی کے حصول کی خاطر پھانسیاں قبول کی ہیں۔ اپنی چمکتی جوانیاں جیلوں کی آہنی سلاخوں کے پیچھے گزاری ہیں۔ اس جدو جہد میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔ بلوچستان نے 76سال اپنے حقوق، اپنے قدرتی وسائل سے فیض یاب ہونے، انسانیت کا وقار حاصل کرنے کیلئے مسلسل جدو جہد کی ہے۔ سندھ کے ریگ زار، سندھو ندی کی موجیں گواہی دیتی ہیں کہ سندھ کے بیٹے اپنے جائز حقوق کیلئے کس طرح قربانیاں دیتے رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کا نام دے کر استحصالی یہ سمجھ بیٹھے کہ اب سرحد کے غیور باشندے اپنے حقوق نہیں مانگیں گے۔ اس وقت کے پی کے کی وادیاں ،میدان حقیقی آزادی کیلئے سب سے زیادہ گرم ہیں۔ پنجاب کی بیداری ایک تاریخی حقیقت ہے۔ 76سال سے پنجاب اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا کفارہ ادا کررہاہے۔ اگر 1970کے عشرے میں پنجاب اسی طرح جاگ جاتا تو مشرقی پاکستان والے ہمارے ساتھ ہی ہوتے۔

ہر پاکستانی کے ذہن میں یہ امر راسخ ہونا چاہئے کہ اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے۔ سیاست، صنعت، معیشت، تعلیم، بازار، گلی کوچوں میں جو بھی بد حالی ہے، وحشت ہے، بے کسی ہے، یہ منطقی اور تاریخی نتیجہ ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے کسی نظریاتی بنیاد کے بغیر حکمرانی کی۔ ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں جو شخصیات کے عشق میں مبتلا ہو کر یہ بھول گئے کہ معاشرے کسی نظریے، کسی نظام کے تحت آگے بڑھتے ہیں۔ خوشحالی اور پائیدار ترقی کیلئے ہر فرد کی زندگی میں آسانیاں فراہم کرنے کیلئے کم از کم دس پندرہ سال کے روڈ میپ (لائحہ عمل) بنانا ہوتے ہیں۔ حکومتیں بدلیں، لیکن یہ لائحہ عمل تبدیل نہیں ہونے چاہئیں۔ ہم 76سال سے اقتصادی، سماجی تسلسل میں رکاوٹیں ڈالتے آرہے ہیں۔ ہم سڑکوں پر ناکے لگا کر، سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمے قائم کرکے،دوسروں پر غداری کے الزامات عائد کر کے اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ اس طرح معاشرہ تقسیم در تقسیم ہو رہا ہے۔

اس وقت ہم جس ادبار اور انتشار کا شکار ہیں، یہ اچانک اور بلاوجہ نہیں ہے۔ یہ یقین کر لیں کہ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے 15اگست 1947 سے ہی یہ عزم کر لیا تھا کہ پاکستان کو کامیاب ملک نہیں بننے دینا۔ آج بھی اس کی یہی پالیسی ہے۔ پہلے سوویت یونین اس کی سرپرستی کر رہا تھا۔ اب امریکہ پالن ہار ہے۔ اس وقت ہم جس خطرناک بحران سے دوچار ہیں یہ صرف داخلی نہیں ہے، اس میں امریکہ نیٹو کے اتحادی، مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے گماشتے سب ساتھ ہیں۔ وہ پاکستان کو اسی طرح تڑپتا، سلگتا، بڑبڑاتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب ہم پاکستانیوں پر منحصر ہے، خاص طور پر میڈیا، محنت کشوں، سیاسی کارکنوں، اہل قلم سے وقت تقاضا کررہا ہے کہ ہم ملک میں امریکی گماشتوں کو بے نقاب کریں۔ پاکستانیت کی حدود مقرر کریں۔ 2024 کے الیکشن کو فیصلہ کن بنائیں۔45 دن رہ گئے ہیں۔ ووٹ پاکستانیت کی بنیاد پر دیں۔ اچھی حکمرانی کیلئے دیں، حقیقی آزادی کیلئے دیں، مقابلہ صرف ملک میں سیاسی مخالفین کے درمیان نہیں،عالمی طاقتوں سے ہے۔ہمیں بین الاقوامی قوتوں کا ایجنڈا ناکام بنانا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ