آٹھ فروری کو عام انتخابات ملتوی کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہونے کے باوجود یار لوگ اب بھی باز نہیں آ رہے۔ وکلا تنظیموں کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کے مطالبے کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے لیکن اصل ٹارگٹ ایک نہیں دو چیف ہیں۔ جی ہاں اسی دوران چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف بھی کردار کشی کی مہم شروع کردی گئی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اگلے کئی سالوں تک پی ٹی آئی کی اقتدار میں واپسی کا کوئی امکان نہیں لیکن دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے کے مصداق اس وقت وہ اور بعض طاقتور حلقے ہم زبان ہوچکے ہیں کیونکہ دونوں کا ٹارگٹ ایک ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ نے آٹھ فروری کو الیکشن کرانے کے فیصلے کو پتھر پر لکیر قرار دیا تھا۔ اس پتھر پر ہتھوڑا لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے انتظامیہ سے انتخابی عملہ لینے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر اسی کے حق میں حکم جاری کرکے مارا۔ اس سے بھی بڑا تماشا یہ ہوا کہ جج صاحب نے مزید سماعت کے لیے پانچ رکنی بڑا بینچ بنانے کی سفارش کی تو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے انہی کی سربراہی میں بینچ بنا دیا۔ اس وقت تک رائے یہی تھی کہ یہ سب کچھ پی ٹی آئی کی حمایت میں کیا جا رہا ہے کیونکہ چیف جسٹس بندیال کے دور میں اسلام آباد اور پشاور ہائی کورٹس کے ساتھ لاہور ہائی کورٹ نے بھی اسی پارٹی اور اسکی لیڈر شپ کو اندھا دھند ریلیف دینے کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے تھے ، یہ سلسلہ بڑی حدتک اب بھی جاری ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے اس حکم کے بعد عام انتخابات کا بروقت انعقاد تقریبا ناممکن ہو چلا تھا۔ الیکشن کمیشن کی درخواست پر سپریم کورٹ نے فوری نوٹس لے کر لاہور ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قرار دے کر اسی شب الیکشن شیڈول جاری کرا دیا۔ فاضل چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے ریمارکس میں بجا طور پر کہا کہ عام انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود اس عمل کو الٹانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے جج نے جو عمل کیا وہ مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا ہے۔یہ بھی کہا گیا کہ حیران کن امر ہے کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے پانچ رکنی بینچ پھر انہی جج صاحب کی سربراہی میں بنا دیا۔ اس کے اگلے روز قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے حلقہ بندیوں سے متعلق ایک اور کیس میں بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم کر کے الیکشن میں تاخیر کے تمام دروازے بند کردئیے۔ فاضل عدالت نے کہا الیکشن کسی صورت ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔ شیڈول جاری ہونے کے بعد کچھ نہیں ہوسکتا۔ اب ایسی درخواستوں کا جائزہ عام انتخابات منعقد ہو جانے کے بعد ہی لیا جاسکتا
ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے پی ٹی آئی کی لاہور ہائی کورٹ میں دائر ہونے والی درخواست پر تبصرہ کرنا ضروری ہے۔ اڈیالہ جیل میں بند قیدی سابق چیئرمین کے کہنے پر دائر کی جانے والی اس درخواست میں کہا گیا تھا کہ آر اوز اور ڈی آر اوز عدلیہ سے لیے جائیں۔ 2013 کے عام انتخابات میں ایسا ہی کیا گیا تھا، پوری دنیا نے تماشا دیکھا کہ کیسے دھما چوکڑی مچا کر سازشی ججوں، جرنیلوں اور بیرونی قوتوں نے پی ٹی آئی کے ذریعے سارا ملک یرغمال بنا لیا تھا۔ 2013 کے عام انتخابات کو طنزیہ آر او الیکشن کہا جاتا تھا۔ ویسے بھی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق عدلیہ آج بھی پاکستان کے تین کرپٹ ترین اداروں میں سے ایک ہے، یہاں سے کون سے ہیرے آر اوز کی شکل میں مل سکتے ہیں؟ صاف بات ہے ٹی ٹی پی کی طرح پی ٹی آئی کا ایجنڈا بھی انتخابات کے عمل کو ڈی ریل کرکے انتشار کو بڑھاوا دینا ہے۔ اس وقت اس مہم کو بعض طاقتور ہاتھوں کی حمایت بھی حاصل ہو چکی ہے۔ جس کا تازہ ترین ثبوت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے بیرون ملک دورے پر عین روانگی کے وقت سامنے آیا جب 66 دن پرانے ایک خط کو بنیاد بنا کر انہیں بدنام کرنے کی منظم مہم چلائی گئی۔ جب کہ حقیقت یہ تھی کہ چیف جسٹس اور ان کی اہلیہ نے کوئی پروٹوکول نہیں لیا ، عام مسافروں کی طرح تلاشی دی۔ لیموزین گاڑی کے ذریعے لاؤنج سے ہوائی جہاز تک لے جانے کے لیے ائر پورٹ انتظامیہ کی آفر پر بھی معذرت کرلی۔ حالات اب جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس میں الیکشن کے التوا کاایک ہی مطلب ہوگا کہ باقاعدہ مارشل لا لگ گیا ہے جس کا ملک متحمل ہی نہیں ہوسکتا۔ پی ٹی آئی کو تو مسئلہ درپیش ہے ہی لیکن دوسری سیاسی جماعتیں بھی بروقت انتخابات کے لیے ٹھوس موقف اختیار کرتے نظر نہیں آر ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہو گا گونگلوؤں سے مٹی جھاڑی جا رہی ہے آخر ان سب کو کس نے روک رکھا ہے کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے بتایا تو یہی جا رہا ہے کہ فوجی قیادت کو ٹاؤٹ عناصر کی طرف سے باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ معاشی صورتحال میں کچھ بہتری اور ٹھہراؤ آیا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری بھی متوقع ہے ایسے میں سارا کریڈٹ خود سمیٹنا چاہیے۔ راحیل شریف کی طرز پر راگ الاپا جائے، جو کراچی کے ایک اینکر نے اونچے سروں میں الاپنا شروع بھی کر دیا ہے۔ درجہ چہارم کے میڈیائی ٹاؤٹ بھی متحرک کردئیے گئے ہیں۔ الیکشن رکوانے کی ایسی تمام کوششوں کے باوجود یہ نظر آرہا ہے کہ اب انتخابات رکوانا آسان نہیں۔ بروقت الیکشن کا سارا کریڈٹ سپریم کورٹ کو جائے گا۔ اسٹیبلشمنٹ کو اس میں حصہ ڈال کر نیک نامی کمانی چاہیے۔ اگر کسی بھی قسم کی رکاوٹ پیدا کی گئی تو ساری بدنامی اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں جائے گی، مضمرات کا الگ سے سامنا کرنا ہو گا۔ دو چیف (چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر) کو نشانہ بنانے کی حرکت بہت مہنگی پڑ سکتی ہے، آخر میں قارئین کے لیے ایک دلچسپ اطلاع پیش خدمت ہے۔ اڈیالہ جیل میں بند سابق چیئر مین پی ٹی آئی کو مٹن، دیسی مرغی، دیسی گھی، انڈوں، پراٹھوں، منی جم کہلانے والی ورزشی سائیکل کی فراہمی اور کئی سیل توڑ کر کھلا کمرہ دینے کی غیر معمولی سہولتیں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے پر دی گئی ہیں۔ ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ پی ٹی آئی کے دعوئوں کے برعکس سابق چیئر مین کی اکڑ نکل چکی ہے ورنہ خصوصی سلوک کا سوال ہی پیدا نہ ہو جاتا لیکن بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ مقتدر حلقے اپنے کسی اثاثے کو ضائع کرکے نہیں پھینکتے۔ اسٹیبلشمنٹ کو خوب اندازہ ہے کہ اب سیاسی میدان میں نواز شریف کا مقابلہ کرنے کے لیے اس قد کاٹھ کی کوئی شخصیت موجود نہیں۔ اگرچہ سابق چیئر مین پی ٹی آئی کو آگے کوئی موقع ملنے کا امکان نہیں لیکن اگلی سیاسی حکومت کے سر پر ہنگامہ آرائی اور دھرنوں، دنگوں کی تلوار لٹکانے کے لیے ایک قیدی کو جیل میں اچھی طرح رکھنا، خوب کھلا پلا کر تیار رکھنا کوئی مہنگا سودا نہیں۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات