پیرپور تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کانگریسی قیادت فرقہ وارانہ فسادات کی ذمےداری مسلمانوں پر ڈالتی رہی۔ وزیرِانصاف ڈاکٹر کے۔این۔ کاٹجو نے قرار دِیا کہ مسلم لیگی ارکان کے غیرذمےدارانہ بیانات اور اُردو اَخبارات میں حکومت کو بدنام کرنے والے مضامین دراصل فرقہ وارانہ فسادات کے ذمےدار ہیں اور اَیک اقلیتی فرقہ تقریروتحریر کی آزادی سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر حکومت کو ناکام بنا دینا چاہتا ہے۔ وزیرِموصوف کیلئے مناسب تھا کہ بیان دینے سے پہلے کم از کم اپنے ہی شہر میں ہونے والے فساد کے ایک مقدّمے میں مجسٹریٹ کا یہ فیصلہ پڑھ لیتے کہ ’’فساد کی پہل ہندو کرتے ہیں۔‘‘
یوپی کے وزیرِاعظم مسٹر جی۔بی۔ پنت کی رائے میں مسلم لیگ کا قابلِ اعتراض پروپیگنڈا حکومت کو ناکام بنانے کی ایک کوشش تھی، جبکہ تمام جمہوری ممالک میں حزبِ مخالف حکومت پر تنقید کرنے کی مجاز سمجھی جاتی ہے اور اُس پر کوئی سنگین الزام نہیں لگایا جاتا۔ہمیں یقین ہے کہ اِس مصیبت کی جڑ نیشنلزم کے نام پر ایک فرقے کے آدرشوں کا پرچار اَور اُنہیں زبردستی ذہنوں پر تھوپنا ہے۔ مسلمانوں کو بخوبی علم تھا کہ اُن کے پاس طاقت نہیں اور وُہ اَکثریتی فرقے سے خوشگوار تعلق استوار کر کے ہی مناسب تحفظ حاصل کر سکتے ہیں، مگر کانگریسی حکومتوں نے ہندو بلوائیوں کو شہ دے کر مسلمانوں کا اعتماد پارہ پارہ کر دیا ہے۔
حالیہ دور میں زبان اور ثقافت کا مسئلہ بےحد اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ بدقسمتی سے کانگریس کے بعض ممتاز لیکن پراگندہ ذہن کے مالک رہنمایہ برملا اعلان کرتے آئے ہیں کہ ہندوستان میں اسلامی ثقافت کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں، حالانکہ ثقافت کا لفظ وسیع مفہوم رکھتا ہے جو اِنسان کی تمام ذہنی کاوشوں ،ذوقِ جمالیات، روحانیت، اخلاق، معاشی، معاشرتی اور سیاسی دائروں پر محیط ہے۔ ثقافت کا صحیح مرکز انسانی ذہن ہے۔ ذہن جیسا ہو گا، اُسی طرح کا ثقافتی عمل ظہور میں آئے گا۔
اردو زبان کے بارے میں یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ اِس نے ایک عظیم تخلیقی اور ثقافتی عمل سے پرورش پائی ہے۔ ہندوستان میں مسلم حکمران فارسی یا عربی زبان بولتے تھے، مگر اُنہوں نے ہندی اور سنسکرت زبانوں کے ملاپ سے اردو تشکیل دی جو ہندوستان کے عوام کی مشترکہ زبان قرار پائی۔ بدقسمتی سے فرقہ وارانہ کشیدگی نے زبان کے مسئلے پر بھی نہایت منفی اثر ڈالا ہے اور اُردو جو اَب تک ہندوستان کی مشترکہ زبان تھی، اُسے صرف مسلمانوں کی زبان کا نام دے دیا گیا۔ اِس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ جب مسلمانوں نے اردو زبان کو اَپنانے کا فیصلہ کیا تھا، تو اپنا تمام ذخیرۂ علم اُس میں منتقل کر دیا تھا، اِس لیے وہ اُسے نیست و نابود کر دینے والی ہر سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔پنڈت جواہر لال نہرو نے زبان کے مسئلے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس ہندوستان میں اقلیتوں کی زبان اور ثقافت کے تحفظ کی ضامن ہے اور صوبے کی بڑی بڑی زبانوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہے، لیکن اِسی کے ساتھ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہندوستانی زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے جبکہ ہندوستانی زبان کا کوئی وجود نہیں۔ ہمیں سنسکرت کے اُن حامیوں پر حیرت ہے جو ایک مردہ زبان کو ہندوستانی زبان کا درجہ دے کر اُسے نافذ کرنا چاہتے ہیں۔
صوبہ بہار کے وزیرِتعلیم کی دو تقریریں اِس موضوع پر پوری روشنی ڈالتی ہیں۔ نصاب کمیٹی کی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے اُنہوں نے اعلان کیا کہ ہندوستان کی روح اب جاگ اٹھی ہے جو اَپنے اظہار، پہچان اور تکمیل کیلئے چیخ رہی ہے، مگر وہ اَپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتی جب تک اِسے وہی سانچہ نہ مل جائے جس میں کبیر، نانک، تُلسی داس نے سوچا، پڑھا، گایا اور پراتھنا کی تھی۔ ہمارے نزدیک وزیرِتعلیم نے ہندوستان کے ثقافتی مستقبل کی کس قدر تنگ اور یک رخی تصویر دکھائی ہے۔ وہ خسرو، غالبؔ اور میرؔ کا وجود یکسر فراموش کر بیٹھے ہیں بلکہ پراتھنا کے مذہبی عنصر کو بھی ثقافت کا حصّہ بنا ڈالا ہے۔ ہم حیران ہیں کہ پراتھنا کی شمولیت سے تعلیم کا دنیاوی رنگ کس طرح قائم رکھا جا سکے گا۔ وزیرِتعلیم کے اِن ارشادات سے پتہ چلتا ہے کہ آئندہ کس قسم کا ثقافتی ماحول پیدا کرنا مقصود ہے اور وُہ خلیج کس قدر گہری ہو جائے گی جو کانگریس کے ذمےداروں کی غیرذمےداری سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان حائل ہو گئی ہے۔
ہندوستان کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت اردو بولتی اور پڑھتی ہے اور یہی اُن کی مادری زبان ہے۔ اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے اِس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر اُن کے بچوں کو اُن کی مادری زبان کے بجائے کسی اور صوبائی زبان میں تعلیم دی گئی، تو اِس سے اُن میں ثقافتی زوال بھی آئے گا اور وُہ مقابلے کے امتحانات میں دوسرے فرقوں کے اُن بچوں کی نسبت گھاٹے میں رہیں گے جنہوں نے مادری زبان میں تعلیم حاصل کی ہو گی۔
اڑیسہ اور سی پی کے مرہٹی بولنے والے اضلاع اور بہار کے مسلمان اِس تجویز پر سخت پریشان ہیں کہ اُن کا ذریعۂ تعلیم اڑیا اور مرہٹی ہو گا جبکہ اُردو ذریعۂ تعلیم کی زبانوں سے خارج کر دی جائے گی۔ ہمارے سامنے یہ شکایتیں بھی آئی ہیں کہ حکومتی اور بلدیاتی ادارے اُن مقامات پر اردو اسکول کھولنے پر رضامند نہیں جہاں مسلمان طالبِ علموں کی معقول تعداد موجود ہے۔ مالا بار میں ڈسٹرکٹ بورڈ نے جن 73؍اسکولوں کو غیرمنافع بخش قرار دَے کر بند کرنے کی سفارش کی ہے، اُن میں 58؍اسکول مسلمانوں کے ہیں۔ بدقسمتی سے وہ بیشتر خصوصی مراعات جو سابقہ حکومتوں نے تعلیم کی حوصلہ افزائی کیلئےمنظور کی تھیں، کانگریسی حکومت نے واپس لے لی ہیں۔ سواگور (Saugor) اور مانڈلا (Mandla) کے اضلاع جو بہار میں واقع ہیں اور جہاں مسلمانوں کی خاصی آبادی ہے، اُن میں ایک بھی اردو اسکول نہیں۔ ہنگن گھاٹ (Hingan Ghat) میں ابتدائی اور بالائی جماعتوں میں ساری پڑھائی مرہٹی زبان میں ہو رہی ہے۔ سی پی اور بہار کے صوبوں میں بلدیات کی طرف سے اردو میں لکھی ہوئی درخواستیں مسترد کر دی جاتی ہیں۔ جو درسی کتابیں لگائی گئی ہیں، وہ صرف ہندو دَیوتاؤں، ہندو جانبازوں اور رشیوں کے ذکر سے بھری پڑی ہیں۔ اُن میں مسلمانوں کے اکابرین اور اُن کی قابلِ قدر ثقافتی یا معاشرتی کامیابیوں کا سرے سے کوئی ذکر نہیں۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ جنگ