سوتیلا کیا کرے؟ : تحریر سہیل وڑائچ


تضادستان میں لاڈلے اور سوتیلے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی باؤ جی سوتیلے ہوا کرتے تھے آج لاڈلے ہیں۔ اسی طرح کھلاڑی ایک زمانے میں لاڈلے ہوا کرتے تھے آج کل سوتیلے ہیں۔ آصف زرداری دیر تک سوتیلے رہے آج کل لاڈلے اور سوتیلے کے درمیان پتلی سی لکیر پر چل رہے ہیں۔

آیئے آج لاڈلوں اور سوتیلوں کے حقوق و فرائض پر بات کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی لاڈلا ہو جائے تو اسے کیا کرنا چاہیے اور اگر کوئی سوتیلے پن کا شکار ہو تو اس کو کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔

سب سے پہلی بات جو لاڈلوں کو مدنظر رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ تضادستان میں حالات بدلتے رہتے ہیں، اس لئے ہر لاڈلے کو اس وقت کیلئے بھی تیار رہنا چاہیے، جب وہ سوتیلے پن کا شکار ہو جائے۔ دوسری طرف جو سوتیلا ہے اس کو اپنی خوبیاں اور کوتاہیاں مدنظر رکھ کر دوبارہ سے حکمت عملی بنانی چاہیے تاکہ وہ مشکل وقت سے نکل سکے۔

مہربان دوست اقبال ٹکا مقتدرہ اور سیاستدانوں کے حوالے سے بتایا کرتے تھے کہ حکومت، اپوزیشن اور سارے سیاستدان مل کر 49 فیصدطاقت کے حامل ہیں جبکہ ریاست کی 51 فیصد طاقت مقتدرہ کے پاس ہے، ان کے خیال میں یہی وجہ ہے کہ حکومت یا اپوزیشن میں سے جس کی بھی مقتدرہ سے لڑائی ہو جائے وہ جیت نہیں پاتا۔ ہاں اگر کسی معاملے پر حکومت اور اپوزیشن اکٹھی ہو جائیں تو تب ان کی آواز میں وزن محسوس کیا جاتا ہے۔

میں ذاتی طور پر آئیڈیل جمہوریت کاقائل ہوں، جس کےمطابق جسے مقبولیت حاصل ہو وہی حکمران ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے تضادستان میں ایک ہائبرڈ نظام ہے سکیورٹی سٹیٹ ہونے کی وجہ سے مقبولیت کے ساتھ ساتھ قبولیت بھی ضروری ہے۔ اقتدار حاصل ہی اسے ہوتا ہے جو لاڈلا ہوتا ہے اور جو بھی سوتیلا ہوتا ہے اس سے اقتدار بھی چھن جاتا ہے اور مشکلا ت بھی اس کا مقدر ٹھہرتی ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو سوتیلے ہوئے تو نہ صرف اقتدار سے نکلے بلکہ کال کوٹھڑی تک پہنچا دیئے گئے۔ بھٹو نے جیل جانے کے باوجود لچک دکھانے سے انکار کردیا، جنرل ضیا الحق کو یہ لگتا تھا کہ قبر ایک ہے اور بندے دو۔ جنرل ضیا نے جوشِ انتقام میں بھٹو کو قبر میں پہنچا دیا۔

تاریخ کا فیصلہ اگرچہ الٹ ہے کہ بھٹو زندہ ہے اور جنرل ضیا فیصل مسجد کے باہر دفن ہونے کے باوجود قبر پر میلہ نہیں لگا سکے۔ بھٹو کی قبر آج بھی زندہ ہے، میں نے وہاں نوبیاہتا شادی شدہ جوڑوں کو سلام کرنے آتے دیکھا ہے۔

اس تاریخی حقیقت کے باوجود اس مفروضے پر غور کریں کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیا الحق کوئی درمیانی راستہ نکال لیتے تو ملک سیاسی اور سماجی بحرانوں کا شکار نہ ہوتا۔

بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں نے اس سانحہ سے سبق سیکھا۔ بے نظیر بھٹو اپریل 1986 میں پاکستان واپس آئیں تو ان کا فقید المثال استقبال ہوا۔اس وقت تک پیپلز پارٹی ضیا حکومت اور امریکہ دونوں کیلئے سوتیلی تھی۔ بے نظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی کے ان کارکنوں کو سختی سے روک دیا جو امریکہ کے جھنڈے جلاتے تھے اور امریکہ کو بھٹو کے قتل کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔اسی مقتدرہ سے، جو ان کے والد کو پھانسی میں ملوث تھی، مذاکرات کا راستہ اپنایا اور بالآخران سے مفاہمت کرکے مقبولیت اور قبولیت کے اشتراک سے حکومت سنبھالی، حکومت سنبھالنےسے پہلے مقتدرہ نے خارجہ، خزانہ اور دفاع کے وزیر اپنی طرف سے نامزد کئے ، بے نظیر بھٹو نے لچک دکھا کر اس سمجھوتے کو بھی قبول کرلیا۔ جنرل مشرف کے ساتھ این آر اوبھی اسی لچک اور مفاہمت کا آئینہ دار تھا۔

اس رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عملی سیاست میں لچک دکھانے سے راستے کھلتے ہیں اور ضد کرنے سے، اڑنے سے راستے بند ہوتے ہیں۔

نواز شریف کی سیاست میں ضد اور لچک دونوں کی آمیزش ہے، وہ مقتدرہ سے کئی بار پنجہ آزما ہوئے لیکن ہر بار مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھا، ایک بھائی سخت بیان دے رہا ہوتا ہے تو دوسرا بھائی خفیہ مذاکرات کے ذریعے راہ ہموار کر رہا ہوتا ہے۔ لچک کی یہی کامیاب حکمت عملی ہے جس کی وجہ سے نوازشریف آج چوتھی بار مقتدرہ سے صلح صفائی کرکے وزیر اعظم بننے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔

آج کے سوتیلے کھلاڑی خان کے لاکھوں کروڑوں حامی ہیں اس لئے جمہوری کلچر کے فروغ اور اس کو جاری رکھنے کیلئے ان کی موجودگی ضروری ہے گزشتہ روز جیل میں ہونے والے ٹرائیل کے حوالے سے پتہ چلا کہ وہ بھری عدالت میں ٹانگ پر ٹانگ رکھے تیسری قطار میں بیٹھے بیٹھے ہی ججوں سے مخاطب ہو رہے تھے۔

اس سے ایک تاثر تو یہ ملتا ہے کہ وہ ڈٹے ہوئے ہیں لیکن عملیت پسندی کا تقاضا ہے کہ وہ لچک کا مظاہرہ کریں مقتدرہ سے لڑائی کا تاثر دور کرنے کی کوشش کریں، ہر صورت الیکشن میں ان کی پارٹی حصہ لے اور جتنی بھی نشستیں ملیں وہ اسمبلیوں میں بیٹھیں۔

میڈیا پر ان کے دور میں جو زیادتیاں ہوئیں ان کے حوالے سے معذرت کریں، ججوں اور صحافیوں کے خلاف جو کارروائیاں ہوئیں ان کی صفائی دیں۔ خلیجی ممالک، امریکہ اور بھارت سے اپنی خوامخواہ کی لڑائی بند کریں۔ صحافیوں کی ٹرولنگ، گالی گلوچ کا کلچر، جھوٹی خبریں اور پراپیگنڈا ان کی پارٹی کا فائدہ نہیں کر رہا بلکہ الٹا نقصان کر رہا ہے، اسے روکیں۔

آخر میں مقتدرہ سے بھی گزارش ہے کہ لاڈلے اور سوتیلے کا کھیل کھیلنے سے ریاست پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوا ہے، مقتدرہ پاکستان کی اہم ترین ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی۔ لیکن مقتدرہ کا سیاسی کردار سوسائٹی میں تقسیم کی وجہ بنتا ہے۔

مقتدرہ تو پورے پاکستان کی مشترکہ ہے جب وہ کوئی سیاسی سائیڈ لیتی ہے تو دوسری سائیڈ کے لوگوں کو برا لگتا ہے۔ اگر سیاسی حوالے سے غیر جانبداری اپنا لی جائے تو مقتدرہ کا مقام اور بلند ہوگا۔

بدقسمتی ہے کہ یہی نوازشریف کبھی سوتیلے اور کبھی لاڈلے ٹھہرتے ہیں، یہی آصف زرداری لاڈلے صدر ہوتے ہیں اور پھر سوتیلے ہو کر جیل جاتے ہیں۔ یہی حال عمران خان کا ہے 2018ء میں اسی مقتدرہ نے انہیں آسمان پر پہنچایا، اب اسے پاتال تک پہنچانے پر مصر ہے۔

نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان تو بدلے نہیں ہیں مقتدرہ ہی رنگ بدلتی رہی ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص پہلے اچھا تھا اب برا ہوگیا ہے یا پہلے برا تھا اب اچھا ہوگیا ہے۔

میری رائے میں مقتدرہ کی عینک تبدیل ہوئی ہے حالانکہ سیاستدانوں کو عینک لگائے بغیر ایک ہی نظر سے دیکھنا ایک جمہوری فلاحی مملکت بنانے کیلئے ضروری ہے اگر یہ نہ کیا گیا تو ہم ڈبکیاں کھاتے رہیں گے، ساحل تک کبھی نہیں پہنچیں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ