امریکی عدالت نے امریکا کے سابق صدر اور اگلے انتخابات کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو کیپیٹل ہل پر حملہ میں ملوث ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کی انتخابی سیاست کے لیے نا اہل قرار دے دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس ابھی امریکی سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا حق باقی ہے۔
لیکن امریکی آئین کے ماہرین کا خیال ہے کہ اب ڈونلڈ ٹرمپ کے اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے امکانات بہت کم ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اگلے سال صدارتی انتخاب کے لیے ابھی تک ری پبلکن پارٹی کے سب سے مضبوط امیدوار تھے۔ لیکن اب وہ ریس میں نہیں ہونگے۔
انھیں امریکی آئین کی جس شق کے تحت نا اہل قرار دیا گیا ہے اس کے مطابق آئین کا حلف اٹھانے کے بعد آئین کی خلاف ورزی یا آئین سے بغاوت کے بعد آپ نا اہل ہو جاتے ہیں۔ امریکی عدالت کے مطابق کیپٹل ہل پر حملہ آئین سے بغاوت کے مترادف ہی تھا۔ امریکی تاریخ میں کسی بھی صدارتی امیدوار پر اس شق کا پہلی دفعہ استعمال کیا گیا ہے۔
ورنہ اس شق کا عمومی استعمال بہت کم ہی نظر آیا ہے۔ امریکی تاریخ کے مطابق 1919میں امریکی کانگریس نے ایک منتخب ہونے والے سوشلسٹ رکن کو حلف لینے سے روک دیا تھا کہ اس نے پہلی جنگ عظیم میں امریکی مخالف تنظیموں کی مالی مدد کی تھی جو امریکا سے بغاوت کے مترادف تھا۔ اسی طرح گزشتہ سال نیو میکسیکو کے ایک جج نے ایک مقامی کمشنر کو نا اہل کیا تھا کہ وہ کیپٹیل ہل حملہ میں ملوث تھا۔ ورنہ اس شق کا استعمال امریکا میں نظر نہیں آتا۔ لیکن یہ اپنی جگہ موجود رہی ہے۔ اب پہلی دفعہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اس کے تحت نا اہل کیا گیا ہے۔
یہ فیصلہ ایک سات رکنی بنچ نے اکثریتی ووٹ سے دیا ہے۔ چار ججز نے ٹرمپ کو نا اہل کرنے کے حق میں فیصلہ دیا ہے جب کہ تین ججوں نے نا اہل نہ کرنے کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ اب فائنل فیصلہ امریکی سپریم کورٹ کرے گی۔ کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والے امریکیوں کو سزائیں دی جا چکی ہیں، وہ اپنی سزائیں کاٹ بھی رہے ہیں۔
انھیں مثالی طویل قید کی سزائیں دی گئی ہیں تا کہ آیندہ کوئی ایسی جرات نہ کر سکے۔ ٹرمپ صدارتی استثنی بھی مانگ رہے تھے کہ اس وقت وہ صدر تھے اس لیے انھیں اس قسم کے مقدمات سے استثنی حاصل تھا اور پھر وہ موقع پر موجود بھی نہیں تھے۔ لیکن شاید ان کے دونوں دفاع ہی ان کے کام نہیں آسکے ہیں اور وہ نا اہل ہو گئے ہیں۔ امریکی آئین کے مطابق اس نا اہلی کو ختم کرنے کا طریقہ بہت مشکل ہے۔
دونوں ایوانوں کی دو تہائی اکثریت مل کر اس نا اہلی کو ختم کر سکتی ہے۔ اس لیے اس وقت ری پبلکن کے پاس دونوں ایوانوں مین دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔ اس لیے امریکی ایوانوں سے بھی اس نا اہلی کے ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ امریکی سیاست میں کسی بھی پارٹی کے پاس دو تہائی اکثریت ہونا عملی طور پر نا ممکن ہی رہا ہے۔
اس لیے یہ دروازہ بند ہی ہے۔ ابھی تو امریکی ریاست کولو راڈو نے ڈونلڈ ٹرمپ کو نا اہل قرار دیا ہے۔ لیکن اسی طرح کے مقدمات ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکا کی دیگر ریاستوں میں بھی زیر سماعت ہیں۔اس لیے امید کی جا رہی ہے کہ اب امریکا کی دیگر ریاستوں سے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو نا اہل قرار دینے کے فیصلے آجائیں گے۔ اس طرح وہ ایک نہیں کئی عدالتوں سے نا اہل ہو جائیں گے۔
یہ بھی امریکی تاریخ کا ایک الگ ہی واقعہ ہوگا جہاں ایک امیدوار کو امریکا کی مختلف ریاستوں کی اعلی عدالتیں نا اہل قرار دیں گی۔ اس لیے ٹرمپ کے لیے آئینی و قانونی مشکلات بڑھنے کے امکانات کافی روشن ہیں۔ ان کے کم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے۔ ٹرمپ کے وکلا کا دفاع یہی سامنے آرہا ہے کہ امریکی آئین کی جس شق کے تحت ٹرمپ کو نا اہل قرار دیا گیا ہے وہ شق امریکی صدارتی امیدوار کے لیے نہیں ہے۔ وہ کانگریس، سینیٹ ارکان اور دیگر عہدوں کے لیے ہے تاہم ابھی عدالت نے ان کا یہ دفاع نہیں مانا ہے۔
ٹرمپ امریکا میں مقبول ہیں۔ ایک عام امریکی ان کے انداز سیاست کو پسند کرتا ہے۔ وہ ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدواروں کے مباحثوں میں نہیں جا رہے تھے کیونکہ ان کا موقف تھا کہ وہ اتنے مقبول ہیں کہ ان کو ایسے مباحثوں میں جا کر اپنے ہم عصر امیدواران کے سوالات کا جواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ان کے مطابق اگر کسی نے اس سے مباحثہ کرنا ہے تو پہلے مقبولیت میں ان کے برابر آئے پھر ہی وہ مباحثہ کریں گے۔ ان کے اس موقف کو امریکا جمہوری روایات کے منافی قرار دیا جا رہا تھا کیونکہ امیدواروں کے درمیان مباحثوں کو امریکی انتخابات میں ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم ٹرمپ کسی جمہوری روایت کو نہیں مانتے تھے لیکن پھر بھی مقبول تھے۔
عام امریکی کو ان کے غیر جمہوری انداز بھی پسند تھے۔ وہ غیر روایتی سیاستدان ہیں۔ ان کی روایات کو توڑنا ہی ان کی مقبولیت سمجھا جاتا ہے اور وہ اس کو اپنا منفرد انداز بھی سمجھتے رہے ہیں۔ امریکی سپریم کورٹ میں جج نامزد کرنے کا اختیار امریکی صدر کے پاس ہوتا ہے۔ جس کی بعد میں سینیٹ توثیق کرتی ہے۔
اس لیے کہیں نہ کہیں یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکی سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی سیاسی ہوتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس وقت امریکی سپریم کورٹ میں ری پبلکن صدور کی جانب سے تعینات کیے جانے والے صدور کی تعداد زیادہ ہے۔
خود ٹرمپ کے اپنے نامزد کردہ تین جج بھی سپریم کورٹ میں ہیں۔ اسی طرح بائیڈن کے نامزد کردہ صرف ایک جج ہیں۔ لیکن صدر بارک اوباما کے نامزد کردہ بھی دو جج موجود ہیں۔ لیکن شاید فیصلہ سابق صدر بش کے نامزد کردہ ججز کے ہاتھ میں ہوگا۔ وہ کدھر جائیں گے۔ فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے۔
یہ دلچسپ کھیل ہے۔ لیکن ابھی ٹرمپ کو ایک سیاسی دھچکا ملا ہے۔ جس کی شاید ان کو توقع نہیں تھی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ قانونی لڑائی کو صدارتی انتخاب تک لے جائیں گے۔ پھر جب وہ صدر بن گئے تو استثنی مل جائے گا۔ پھر چار سال بعد دیکھی جائے گی۔ لیکن شاید یہ کھیل کامیاب نہیں ہوا ہے۔ ان کے تمام مقدمات کا فیصلہ صدارتی انتخاب سے پہلے ہی ممکن نظر آرہا ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس