اعصابی امراض کے علاج کے لیے ادویات اور طریقہ کار کی لاگت بہت زیادہ ہے،ڈاکٹر فوزیہ صدیقی

کراچی(صباح نیوز)  اعصابی امراض کے علاج کے لیے ادویات اور طریقہ کار کی لاگت بہت زیادہ ہے اور یہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کے پالیسی ساز اس سنگین مسئلے کے بارے میں بہت کم فکر مند نظر آتے ہیں، یہ بات ایپی لیپسی فاؤنڈیشن پاکستان کی صدر اور ملک کی معروف نیورو فزیشن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ہانگ کانگ میں منعقدہ ساؤتھ ایشین مائیگرین مینجمنٹ ایڈوائزری بورڈ کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے کہی جس میں آٹھ ممالک جرمنی، ہانگ کانگ، تھائی لینڈ،انڈونیشیا، تائیوان، ملائیشیا، فلپائن اور پاکستان شریک تھے ۔

مشاورتی بورڈ کے اجلاس میں درد شقیقہ، آدھے سر کا درد کے حملوں کو کم کرنے اور علاج کے لیے ادویات کے ایک نئے گروپ کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔جاری تفصیلات کے مطابق  ان کا کہنا تھا کہ درد شقیقہ صرف سر درد نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر دیگر بیماریوں سے منسلک ایک بوجھ ہے۔ 2019 میں ہونے والے ایک سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر 1.1 بلین افراد درد شقیقہ کا شکار ہیں اور 42.1 ملین معذوری کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ دنیا بھر میں خاص طور پر 15ـ49 سال کی خواتین میں معذوری کی دوسری سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ نئے علاج جو جینیاتی ریسیپٹرز (genetic receptors) کو گھٹاتے (modulate) کرتے ہیں جو درد شقیقہ کے دوران فعال ہوتے ہیں جنہیں CGRP مخالف مونوکلونل اینٹی باڈیز کہا جاتا ہے۔

ان میں سے زیادہ تر اینٹی باڈیز انجیکشن کی شکل میں دی جاتی ہیں اوریہ بہت مہنگی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر eptinezumab IV جو ہر تین ماہ بعد دی جاتی ہے تاکہ درد شقیقہ کے حملوں کو ہونے سے روکا جا سکے۔ تاہم یہ بہت مہنگا ہے جیسے 100 ملی گرام کا انجیکشن 1,708 ڈالر کا ہے جو کہ تقریباً 4.75 لاکھ پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ ہمیں پاکستان میں اس طرح کی ادویات کی ضرورت ہے اور ادویات پر سبسڈی اور ادائیگی کا کوئی طریقہ نکالنا چاہئے۔ انہوں نے ایڈوائزری بورڈ پر زور دیا کہ وہ مختلف ایجادات کے ساتھ آئیں تاکہ ان ادویات کو پاکستان، تائیوان اور فلپائن جیسے ممالک میں سستی اور کم خرچ لاگت سے مریضوں کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔یہ دوائیں یقینا لاکھوں لوگوں کی اذیت کو کم کرسکتی ہیں لیکن اس قیمت پر فوائد صرف 1ـ2 فیصد مریضوں تک محدود رہیں گے۔

اگر کوئی پالیسی وضع نہ کی گئی تو99 فیصد لوگ نئے طریقہ علاج سے محروم رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تمام فائدہ ایجنٹوں کا ہونا اور مریضوں کو رسائی سے محروم رکھنا پاگل پن ہی ہے۔درد شقیقہ کے بعض قسموں کے علاج کے لیے مرگی کی دوائیں بھی استعمال کی جاتی ہیں اور ان دونوں کا ایک دوسرے سے ملاپ ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ یہ ایک بہت ہی پیچیدہ معاملہ ہے لیکن اگر درست تشخیص ہو اور ادویات سب کے لیے دستیاب ہوں تو یہ قابل علاج ہے۔ پاکستان میں مہنگی ادویات اور شدید قلت ایک تشویش ناک صورت حال بنتی جا رہی ہے جس پر فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔