نواز شریف کی واپسی : تحریر مزمل سہروردی


پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف چار سال بعد پاکستان واپس پہنچ گئے ہیں۔ دبئی سے ان کی روانگی سے لے کر پاکستان پہنچنے تک ہی سیاسی منظر نامہ واضح ہو گیا تھا۔ اسلام آباد ایئرپورٹ سے تو کہانی مزید واضح ہو گئی تھی۔

میاں نواز شریف کی واپسی پر ان کے مخالفین کے تبصرے یہی ہیں کہ اگر اس طرح پروٹوکول سے واپس لانا ہے تو سیدھا وزیراعظم ہی بنا دیں۔ یعنی ان کے مخالفین ان کی واپسی پر ان کو دیے جانے والے پروٹوکول کو ان کے وزیر اعظم بننے کا سیدھا اشارہ سمجھ رہے ہیں۔

نواز شریف کی آمد پر مینار پاکستان پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کا جلسہ یقینی طور پر ایک بڑ اجلسہ تھا۔ اس جلسے نے ماضی کے مینار پاکستان کے تمام جلسوں کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔
کل تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طعنہ دینے والوں کو، کہ ہمت ہے تو مینار پاکستان بھر کر دکھا، جواب مل گیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے میاں نواز شریف کی واپسی پر مینار پاکستان بھر دیا ہے۔ اب تو ن لیگ کے مخالفین بھی یہ بات مان رہے ہیں کہ مینار پاکستان مکمل بھر گیا تھا۔ باہر بھی لوگ تھے۔ سڑکیں جام تھیں۔

کئی ہزار لوگ مینار پاکستان پہنچ ہی نہیں سکے۔اس لیے جلسہ کامیاب تھا۔ بہت سے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا نواز شریف کی آمد پر ہونے والا جلسہ چیئرمین تحریک انصاف کے 2011کے جلسہ سے بڑا تھا۔ میری رائے میں میاں نواز شریف کا جلسہ بڑا تھا۔

میاں نواز شریف کے جلسے نے اس جلسے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کا 2011 کا جلسہ اس وقت ایک چھوٹی جماعت کا بڑا جلسہ تھا۔

اس لیے سب حیران ہو گئے تھے جب کہ ن لیگ ایک بڑی جماعت ہے اور اس طرح ایک بڑی جماعت نے ایک بڑا جلسہ کیا ہے۔تاہم دونوں جلسوں نے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کو دوبارہ زندگی دی ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف کو بھی مینار پاکستان کے اس جلسے سے نئی زندگی ملی تھی ۔ ن لیگ کو بھی نئی زندگی مل گئی ہے۔

میاں نواز شریف کی واپسی نے بلا شبہ پاکستان مسلم لیگ (ن) میں سیاسی طور پر جان ڈال دی ہے۔ ن لیگ کو جس سیاسی بریک تھرو کی ضرورت تھی ایسا لگ رہا ہے کہ انھیں مل گیا ہے۔ ایک رائے بن گئی ہے کہ اگلی باری ن لیگ کی ہے۔ ایسی ہی رائے 2018میں تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے بارے میں بن گئی تھی کہ باری اب کپتان کی ہے۔

اب رائے بن رہی ہے کہ باری ن لیگ کی ہے۔ کھیل پرانا ہے صرف ٹیم بدل گئی ہے۔ نواز شریف کی واپسی کھیل میں تبدیلی لائی ہے۔ نواز شریف کی آمد سے قبل یہ رائے نہیں تھی کہ باری ن لیگ کی ہے۔ بلکہ یہ رائے تھی کہ ن لیگ کے لیے انتخاب کافی مشکل ہوگا۔

لیکن ایک جلسہ نے ماحول بدل دیا ہے۔ کل تک ن لیگ کی سیاست کو مشکلات کا شکار قرار دینے والے ناقدین بھی اب رائے بدلنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کل تک ن لیگ کے ووٹ بینک پر سوال کرنے والے اب دوبارہ ن لیگ کی مقبولیت پر بات کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ناقدین بھی کہہ رہے ہیں کہ ن لیگ کا پنجاب میں ووٹ بینک موجود ہے اور یہ ووٹ بینک قائم ہے ۔ نواز شریف چار سال بعد واپس آئے ہیں۔

انھوں نے خود کہا ہے کہ چھ سال بعد وہ کسی سیاسی جلسے سے خطاب کر رہے ہیں۔جب آپ کسی سیاسی رہنما کو چھ سال تک سیاست سے دور رکھیں گے تو اس کی سیاست کمزور ہو گی۔ لیکن جس طرح کی واپسی ہوئی ہے اس کی بھی کم ہی امید تھی۔ شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایسے واپسی ہو جائے گی۔ چار سال بعد واپسی نے نواز شریف کو ایک نئی سیاسی زندگی دی ہے۔

نواز شریف نے دبئی ایئر پورٹ پر ہی میڈیا سے گفتگو میں اپنی پالیسی واضح کر دی تھی جب نو مئی کے حوالہ سے سوال پر انھوں نے برجستہ کہا کہ وہ نو مئی والے نہیں ہیں وہ 28مئی والے ہیں۔ انھوں نے کہا ہم دفاعی ادارو ں پر حملہ نہیں کرتے بلکہ ہم دفاع کو مضبوط کرنے والے ہیں۔ اس جواب میں مفاہمت اور مزاحمت کا جواب موجود تھا۔ اسی میں سارے ابہام کا جواب بھی موجود تھا۔

میاں نواز شریف کی باڈی لینگوئج بتا رہی تھی کہ وہ بہت پر امید ہیں۔ ان کو حالات اپنے حق میں سازگار نظر آرہے ہیں۔ وہ دبئی ایئر پورٹ پر مسکرا رہے تھے، ہنس رہے تھے، ان کا موڈ بتا رہا تھا کہ وہ بہت خوش ہیں۔ پریشانی کے کوئی آثار نہیں۔ کئی بار گفتگو سے زیادہ باڈی لینگوئج اہم ہوتی ہے۔ سیاسی رہنما کی باڈی لینگوئج ان تمام سوالوں کا بھی جواب دید تی ہے جن کا جواب وہ خود نہیں دے رہا ہوتا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ فتح نواز شریف کو نظر آرہی ہے۔

ان کو لگ رہا ہے کہ اب کھیل ان کے ہاتھ میں ہے۔ انھوں نے اپنے سیاسی مخالف کو شکست دے دی ہے۔ اب انھیں کوئی ڈر نہیں ہے۔

یہ سوال اہم ہے کہ کیا نواز شریف کو اپنی ایسی واپسی کی کوئی امید تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ پی ڈی ایم کی حکومت میں نہیں آئے۔ شہباز شریف کی وزارت عظمی میں نہیں آئے۔ اس لیے ان کو اپنی واپسی کی کوئی خاص امید نہیں تھی۔ ایک رائے ہے کہ نو مئی کے واقعات نے نواز شریف کی واپسی کے لیے راہ ہموار کی۔

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آج بے شک یہ کہا جا سکتا ہے کہ نو مئی کے واقعات نے ان کی واپسی کی راہ ہموار کی لیکن نو مئی کے فوری بعد بھی ان کی واپسی ممکن نہیں تھی۔ نو مئی کے بعد حالات نے جس طرح کا رخ لیا۔ نواز شریف کے سیاسی مخالف نے نو مئی کے بعد بھی جس طرح رد عمل دیا اور جو پالیسی قائم رکھی اس نے نوازشریف کی سسٹم میں کمی کا احساس دلایا۔ یہ احساس پیدا ہوا کہ نواز شریف کے بغیر اب سسٹم ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔

ملک میں موجود سیاسی لڑائی کو ایک سمت دینے کے لیے نواز شریف کی کمی محسوس کی گئی۔ نواز شریف کی واپسی کی راہ میں رکاوٹ قوتوں کو بھی احساس ہوا کہ نواز شریف کے بغیر اب وہ بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ملک میں موجود سیاسی لڑائی کو نواز شریف کے بغیر جیتا نہیں جا سکتا۔ اس لیے نواز شریف کی واپسی سب کی ضرورت بن گئی۔

میں سمجھتا ہوں آج نواز شریف کی واپسی نواز شریف کی ضرورت کم تھی بلکہ سسٹم کی ضرورت زیادہ تھی۔ نواز شریف آج سسٹم کے لیے دوبارہ ناگزیر بن گئے ہیں۔ کھیل ان کے بغیر آگے بڑھ ہی نہیں سکتا تھا۔ نواز شریف کی واپسی نے ثابت بھی کر دیا ہے کہ وہ کھیل کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ اکیلے ہی کھیل کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔

سسٹم نے چیئرمین تحریک انصاف کو بھی ہر ممکن موقع دیا کہ اپنی سیا سی طاقت اور مقبولیت کو قانون اور سسٹم کے ساتھ نہ ٹکرائیں۔ لیکن وہ اپنی انا اور خود پرستی کی وجہ سے اپنا ہی نقصان کر بیٹھے۔ نواز شریف کی سیاسی بصیرت اور سوجھ بوجھ نے انھیں دوبارہ ملک اور سیاست کی ضرورت بنا دیا ہے۔

بے شک عوام کا فیصلہ الیکشن میں سامنے آئے گا لیکن سیاست میں ہواں کا رخ اور بدلتے حالات آگے کا منظر نامہ کافی حد تک واضح کر رہے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس