ایران سنجیدہ ہے اور نیک ارادے رکھتا ہے۔ پابندیاں اٹھانے کے معاملے میں عملی اور ٹھوس نتائج پر یقین رکھتا ہے۔
* وہ راستہ جو اختیار کیا گیا،
ویانا میں ہونے والے مذاکرات کے چھ دور جو امریکا کے بے جا مطالبات اور ناجائز موقف کے باعث ناکام ہو گئے تھے، اب ہم مذاکرات کا ایک نیا دور شروع کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ ان مذاکرات کا بنیادی ہدف ایرانی عوام کے حقوق کا تحفظ اور تمام پابندیاں اٹھانا ہے۔ وه پابندیاں جو کہ جوہری معاہدہ (مشترکہ جامع پلان آف ایکشن) کی خلاف ورزی کرنے والے امریکہ کی طرف سے یکطرفہ اور بیرونی طور پر لگائی گئی ہیں ۔
امریکہ یکطرفہ طور پر 8 مئی 2018 کو جوہری معاہدہ سے الگ ہو گیا۔ ایک ایسا اقدام جسے بین الاقوامی طور پر ایک غیر قانونی عمل کے طور پر جانا گیا اور اس کی مذمت کی گئی۔ ایک بین الاقوامی اتفاق رائے ہے کہ امریکہ کی طرف سے اس طرح کے غیرقانونی اقدامات بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی مکمل خلاف ورزی ہیں اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں ۔
نئی امریکی حکومت کے برسراقتدار آنے کے باوجود نہ صرف تمام غیرقانونی اور یکطرفہ پابندیاں برقرار ہیں بلکہ ایران پر پابندیاں لگانے کی پالیسی بھی جاری ہے۔ واضح رہے کہ ان امریکی اقدامات کا مقصد ایران کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر ارکان اور عالمی برادری کو سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 میں درج حقوق اور مراعات سے مستفید ہونے سے روکنا ہے۔ البته اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے تین یورپی ممالک کی حکومتوں نےاس حقیقت کو درک کرنے کے باوجود کہ امریکی رویہ غیر قانونی اور ناقابل قبول ہے، عملی طور پر اپنی خاموشی اور بے عملی سے اس کا ساتھ دیا ہے۔ امریکہ کے تخریبی اقدامات اور تین یورپی ممالک کے تعاون نے جوہری معاہدہ کو بے اثر کر دیا ہے اور ایران کے لیے اس معاہدے کے تمام اقتصادی فوائد کو تباہ کر دیا ہے۔ یہ گزشتہ چند سالوں کے تلخ حقائق ہیں جنہیں مستقبل میں مدنظر رکهنا چاہیے۔
موجودہ امریکی حکومت کی ٹرمپ انتظامیہ والی تباہ کن روش کے تسلسل سے یہ سنگین سوال اٹھتا ہے کہ کیا امریکی حکومت واقعی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا عزم رکهتی ہے اور وہ سابقہ ناکام پالیسیوں کو ترک کردینے پر
ماده ہے؟ حالیہ مہینوں میں امریکہ کے طرز عمل اور اقدامات کے پیش نظر اس سوال کا جواب مشکل نہیں لگتا۔
کوئی بھی ایران کی سنجیدگی، نیک نیتی اور اپنے وعدوں کی مکمل پاسداری پر سوال نہیں اٹھا سکتا۔ معاهدے سے امریکہ کے غیر قانونی انخلاء اور پابندیوں کے نفاذ کے بعد، ایران نے نیک نیتی کے ساتھ جوابی اقدامات کرنے سے گریز کیا اور جوہری معاہدے کے بقیہ اراکین، یورپی یونین ، جوہری معاہدہ کے کوآرڈینیٹرز کی درخواست پر، جوہری معاہدہ کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے پیچھے نہیں هٹا ۔۔ اس طرح جوہری معاہدے کے دیگر اراکین امریکہ کے انخلا کی وجہ سے پیدا ہونے والی منفی صورتحال کی تلافی نہیں کر سکتے تھے۔ تاہم، اس غیرتعمیری صورت حال کے تسلسل کے پیش نظر اور ایک سال کی حکمت عملی اور صبر کے بعد، امریکی پابندیوں میں اضافے اور تین یورپی ممالک کی جانب سے اپنے وعدوں کی عدم تعمیل کی وجہ سے، ایران کے پاس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے آرٹیکل 26 اور 36 کے تحت اپنے حقوق کا استعمال کرنے اور 8 مئی 2019 سے اپنی ذمہ داریوں کا کچھ حصہ مرحلہ وار پورا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
صورت حال میں کوئی تبدیلی نہ ہونے اور جوہری معاہدہ کے متعلقہ فریقوں کی جانب سے موثر اقدام کی عدم موجودگی اور تاریخ کی بدقسمتی کو دیکهتے هوئے ایران کی اسلامی مشاورتی اسمبلی نے 2 دسمبر 2020 کو پابندیاں اٹھانے اور ایرانی مفادات کے تحفظ کے لیے “اسٹریٹیجک ایکشن پلان” کے قانون کی منظوری دی۔ یه قانون حکومت کو جوہری معاہدہ کے تحت ایران کے تمام رضاکارانہ وعدوں کو ختم کرنے کا پابند کرتا ہے اگر جوہری معاہدہ کے دیگر اراکین تعمیل کرنے میں ناکام رہتے ہیں، جب تک کہ جوہری معاہدہ کے دیگر فریق اپنی مکمل ذمہ داریوں کو پورا نہ کریں۔
ویانا مذاکرات کے پیشرفت کا راستہ
اسلامی جمہوریہ ایران، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مغرب کی تمام وعدہ خلافیوں کے باوجود، اب پانچ عالمی طاقتوں(پی5+1) کے ساتھ ایک “اچھے معاہدے” تک پہنچنے کے لیے نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے تیار ہے، تاکہ خیر سگالی کا مظاہرہ کیا جا سکے۔ یکطرفہ اور غیر قانونی پابندیوں کو ہٹانے کا حتمی مقصد۔
اسلامی جمہوریہ ایران، اس حوالے سے “نیک نیتی” اور سنجیدہ عزم کے ساتھ ویانا میں ایک اچھے معاہدے تک پہنچنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اس عمل کے تناظر میں ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ موجودہ حالات کی اصل وجہ امریکہ ہے۔ پچھلے چار سالوں سے، وائٹ ہاؤس نے ایٹمی معاہدہ کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ، اور یہ ایران ہی تھا جس نے اس معاہدے کو زندہ رکھنے کی پوری کوشش کی۔ بات چیت کے پچھلے چھ ادوار میں جو بات ایران پر واضح ہو چکی ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ اب بھی اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکا کہ ایران اورعالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے ایٹمی معاہدے (برجام) سے نکلنے بعد ایرانی عوام پر عائد کی گئی تمام پابندیاں اٹھائے بغیر، ایٹمی معاہدہ کے طرف واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد2231 (2231) تمام رکن ممالک سے مطالبہ کرتی ہے کہ “ایسے اقدامات کریں جو عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے ایٹمی معاہدے (برجام) نفاذ کی حمایت کے لیے مناسب ہو اور ایسے اقدامات سے پرہیز کرنا جن سے ایٹمی معاہدہ کے ذمہ داریوں اور وعدوں کے نفاذ کو نقصان پہنچے۔”
آئندہ مذاکرات کا اصل ہدف اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات اور مستحکم اقتصادی تعاون کو معمول پر لانے کے مقصد کے ساتھ ایٹمی معاہدے کا مکمل اور موثر نفاذ ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ ایٹمی معاہدے (برجام) میں واپسی کے لیے ایران کو تمام پابندیوں کے خاتمے سے پوری طرح مستفید ہونا چاہیے۔ ایران اپنے معاوضے کے اقدامات کو چھوڑنے پر تیار ہے اگر اسے ضمانتیں فراہم کی جائے، نقصانات کا جائزہ لیا جائے اور پابندیوں کو موثر طور پرہٹایا جائے۔ ایٹمی معاہدے (برجام) میں امریکہ کی ممکنہ واپسی ہمارے لیے مفید نہیں ہوگی جب تک کہ یہ یقین دہانی نہ کرائی جائے کہ ماضی کے تلخ تجربے کو دہرایا نہیں جائے گا اور ایران کےاقتصادی شراکت داروں کواعتماد کے ساتھ ایران سے بغیر کسی پریشانی کے مستحکم اقتصادی معاملات کرنے دیا جائے۔
آئندہ مذاکرات میں جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ ایران اچھے معاہدے تک پہنچنے کے لیے نیک نیتی کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لے گا، وہ ماورائے عدالت درخواستوں کو قبول نہیں کرے گا اور اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی معاہدے (برجام) سے باہر کے مسائل پر مذاکرات میں شامل نہیں ہوگا۔ میں اس بات کا اعادہ کرنا چاہوں گا کہ یہ موقع کوئی کھڑکی نہیں ہے جو ہمیشہ کے لیئے کھلی رہے گی اور امریکہ اور تینوں یورپی ممالک اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہیےکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ظالمانہ امریکی پابندیوں کو ہٹانے کے لیے ایک مضبوط اور فعال سفارتی کوشش کے ساتھ ساتھ ملک کے مستحکم اقتصادی ترقی پروگرام کے سائے میں پابندیوں کو بے اثر کرنے کا ایک موثر منصوبہ بھی بنایا ہے۔ بلاشبہ تہران جس قدر اپنے پرامن ایٹمی پروگرام سے انحراف نہ کرنے کا پابند ہے اتنا ہی اپنے سائنسدانوں اور پرامن ایٹمی پروگرام کی کامیابیوں کے تحفظ کے لیے بھی پرعزم ہے اور غیر قانونی اور غیر انسانی پابندیوں کے باوجود اس نے ہارنہیں مانی ہے اور۔ملک کو جامع ترقی۔ صنعت، تجارت، سمندری، خلائی، دفاع، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں معاشی ترقی کے راستے پر گامزن کیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ایک معاہدہ ممکن اور قابل حصول ہے اگر فریقین کی سیاسی مرضی بھی عملی طور پر موجود ہو۔ وائٹ ہاؤس کی غیر تعمیری کردار اور پالیسیوں پر مغربی غفلت اور بی اعتمادیوں کے باوجود، اسلامی جمہوریہ ایران ویانا مذاکرات کے نئے دور میں “حقیقی ارادے اور نیک نیتی” کے ساتھ کام کرے گا، ایک “اچھے معاہدے” کے حصول ، پابندیاں ہٹانے کے میدان میں ایک مستحکم اور موثر تصدیق۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی ایٹمی مذاکراتی ٹیم ویانا میں مذاکرات کی میز پر نیک نیتی، سنجیدگی اور ایرانی عوام کے مفادات اور حقوق کو یقینی بنانے والے مذاکرات کی منطق کے ساتھ سرگرم طور پر موجود ہے۔ میں اور میرے ساتھی ڈاکٹرباقری کے مذاکراتی اور سینئر مذاکراتی ٹیم کی مکمل حمایت کرتے ہیں، جن کے پاس اس موضوع پر مذاکرات کا وسیع تجربہ ہے، اور اگر ضرورت پڑی تو میں اپنے ہم منصبوں سے مزید مشاورت کروں گا۔
تحریر: وزیر خارجه ایران ،حسین امیرعبداللہیان