میں اپنے رب کو بتاؤں گا : تحریر محمد اظہر حفیظ


میں اب کسی سے شکایت نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کو کچھ بتاتا ہوں۔ چپ رہتا ہوں۔
اب سوچ لیا ہے کہ ایک دن یہ سب اپنے رب کو بتاؤں گا ۔ کہ باقی کوئی بتانے کے قابل ہی نہیں بچا۔
ماں باپ تھے وہ بھی اللہ پاس چلے گئے۔ اب کس کو بتاؤں۔ میں اپنی کچھ عادتوں سے بہت تنگ ہوں۔ مجھے کسی سے شکایت ہو یا دکھ پہنچے میں اگلے لمحے ہی بھول جاتا ہوں ۔
پر پھر بھی مطمئن رہتا ہوں۔ کیونکہ مجھے بھول جانے کی بھی فکر نہیں ہے۔ کیونکہ اب جس کو میں بتاؤں گا ۔ وہ سب جانتا ہے کہ میں بھولا کیا ہوں اور کیا بتانے کا سوچا تھا۔ میں اپنی بے بسی پر اکثر رو پڑتا ہوں اور صرف وہی جانتا ہے کہ میں کیوں رویا ہوں اور کسی کو میں بتانا ہی نہیں چاہتا۔ ساری زندگی جو گزر گئی میں نے کبھی بدلہ لینے کا نہیں سوچا اور میں کمزور اتنا ہوں کہ بدلہ لے ہی نہیں سکتا۔ بس دیکھا یہی ہے کہ جس نے بھی کسی سے زیادتی کی اس کو سزا خود ہی مل جاتی ہے۔ میں نے یہ عمل سینکڑوں دفعہ ہوتے دیکھا۔ سوچتا تھا ایسا کیوں ہوتا ہے تو کسی کو کہتے سنا مکافات عمل ہے۔ میں خود اس کا کئی بار شکار ہوا اور اللہ سے توبہ کرکے ہی اپنی جان اس عذاب سے نکالی۔ ساری زندگی فضول بولنے میں گزار دی اور اب جب کسی کو فضول بولتے دیکھتا ہوں تو،پتہ چلتا،ہے سامنے والے پر کتنی گراں گزرتی ہے۔ دل ہی دل میں معافی مانگتا ہوں۔ کہ بہت غلط کیا ۔ لوگوں کی دل آزاری کی۔ میں سب سے معافی چاہتا ہوں میری کوشش نہیں ہوتی پر ہوجاتی ہے۔ میں دلی طور پر معافی کا طلب گار ہوں۔ میرے شوق میرے ساتھ ساتھ چلے جن کی وجہ سے میرے بیوی بچے بہن بھائی سب بہت زیادہ نظر انداز ہوئے۔ اس کا دکھ بھی مجھے بے چین کرتا ہے۔ میں باقی زندگی سب کو وقت دینا چاہتا ہوں پر اب سب بہت مصروف ہیں۔ ان کے پاس،میرے لیے وقت نہیں ہے۔ چلو کوئی بات نہیں۔ میرا دل کرتا ہے سب کچھ چھوڑ کر گاؤں چلا جاؤں یا کہیں دور فیری میڈوز پر گھر بنالوں۔ پر دونوں جگہیں ہی شہر بن چکی ہیں۔ کل ہی نانگا پربت اور فیری میڈوز کو سلام بھیجا تھا۔ اسی طرح گاوں میں خالد فاروق بھائی سے ہی رابطہ رہ گیا ہے ان کو سلام بھیجتا رہتا ہوں اب یہی تعلق رہ گیا ہے میرا،گاوں اور فیری میڈوز کا۔
میں سلام بھیجتا ہوں پر جواب نہیں آتا۔ وہ وقت دور نہیں جب یہ سب میں اپنے رب کو بتاؤں گا کہ لوگ مجھے تکلیف دے کر کہتے ہیں۔ یار کوئی جگت ہی سناو تم تو لائلپور سے ہو۔ مجھے بھولنے کی عادت ہے نماز پڑھنے لگتا ہوں تو ٹی وی آواز سن کر دھیان ادھر چلا جاتا ہے بھول جاتا ہوں کہ رب سے باتیں کرنی تھیں میں کس،کام میں لگ گیا۔
مجھے محسوس ہوتا ہے یہ بھولنے کی عادت شاید جان لیوا ہوجائے گی بس ایک دن سانس لینا ہی تو بھولنا ہے۔
سوچتا ہوں سب بھول جاوں ، بس یہی بات نہیں بھولتی کہ ایک دن میں اپنے سب دکھ اپنے رب کوسچ سچ بتاؤں گا ۔ اور ہمیشہ کی طرح فیصلہ اسی کا ہوگا جو میرا اور دونوں جہانوں کا مالک ہے۔
میرا بڑا دل کرتا ہے اپنے چچا جی نواز پاس جاؤں ، بھائی طاہر پاس جاؤں بھائی وسیم پاس جاؤں ، بھائی ناصر پاس جاؤں ، باجی ثمینہ پاس جاؤں پر اب سفر کی ہمت نہیں ہے اور تھک جاتا ہوں۔ میرا دل ہے اپنے دیس واپس لوٹ جاؤں۔ میرا دل اداس ہے ۔ مجھے اپنا گاؤں نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ پر اب تو گاوں نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔ آج دل کیا مدینے جاکر بس جاؤں ۔مدینے میں بہت سکون ہے اور مدینہ میرے نبی کریم صلی علیہ وسلم کا شہر ہے، دعا کیجئے گا میری درخواست سنی جائے وسیلہ بن جائے ہر طرف سے آواز آئے مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ۔